پاکستان میں صوبوں اور ڈیموں کے شوشے !!!

0
100
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان میں آئے دن شوشوں کا شوروغل مچا رہتا ہے۔ جس میں نئے صوبوں اور ڈیموں کی تعمیر کا ذکر رہتا ہے جس سے عوام کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ انسانی فلاح وبہبود اور ترقی کے منصوبے کیوں نہ ہوں پچھلے سالوں میں کالا باغ ڈیم کا چرچا رہا ہے جو بحثوں، مباحثوں کے بعد ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ پچھلے دنوں نہروں کا شوروغل رہا جس کو بھی چند دنوں کے بعد نظریہ تقسیم کی قبر میں دفنانا پڑا اب جب ملک بھرمیں سیلابوں طوفانوں اور زلزلوں کا قہر مچا ہوا ہے پورا ملک ڈوب چکا ہے۔ تو ایسے موقع پر ڈیموں کا شوشہ چھوڑا گیا جس پر بھی لاشوں کے گرنے گرانے کا ذکر رہا جس سے معلوم ہوتا ہے پاکستان واقعی ہی چند دہائیوں کے لئے بنایا گیا تھا جس کے حقیقی خالق قائداعظم نہیں اس خطے کے جاگیردار رسہ گیر، وڈیرے تھے جو ہندوستان کے اندر کانگریس کی عوامی پالیسیوں سے خوف زدہ تھے جن کو علم تھا کہ گرہندوستان متحد رہا تو لینڈر فارمز یا دوسری اصلاحات سے ان کی انگریزوں کی عطا کردہ جاگیریں، جائیدادیں اور زمینیں چھن جائیں گی لہذا پاکستان کو چند دہائیوں کے لئے بنوا لو پھر آہستہ آہستہ1971کی طرح توڑ پھوڑ ڈالیں گے حالانکہ ملک کے عوام کے لئے قومی سطح پر عوام کے منتخب اداروں میں بحث ومباحثہ ہوں کہ فلاحی منصوبہ قومی ہے جس سے ہر شخص کو فائدہ پہنچے گا چونکہ ملک پرہماں وقت عوام اور ملک دشمن طبقہ نے غالب رہتا ہے جو الٹے سیدھے بیانوں اور بہانوں سے عوام کی تقسیم در تقسیم کرتے چلے آرہے ہیں تاہم آجکل دریائوں اور یہاڑوں میں پانی اور پتھروں کاسیلاب آیا ہوا ہے جس سے بے تحاشہ تباہی مچی ہوئی ہے ہر طرف قہر اور عذاب کا ذکر ہے پنجاب کی حکمران خواتین کی حکومت اپنے عوام کے لئے دن رات کام کر رہی ہیں۔جبکہ پختونخواہ کا مرد غنڈا پور اپنے صوبے کے پتھروں تلے دبے ہوئے عوام کے بچائو کی بجائے اپنے پیرومرشد عمران خان رہائی اور بچائو میں مصروف ہے۔ سندھ کے چیف منسٹر سیلاب کے منتظر ہیں کہ کب پانی آئے گا کب ان کی کشتیاں پانی کے سمندر میں اتاری جائیں گی یہ جانتے ہوئے کہ یہ سیلاب ہر سال آتے ہیں کبھی کم اور کبھی زیادہ جس کے لئے مستقل حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ سیلاب کو روکنے کے لئے کیا کیا تدابیر اختیار کرنا چاہئے تاکہ عوام کو بھاری بھر کے نقصانات سے بچایا جائے اگر ڈیموں سے پانی کی شدت کو روکا جاسکتا ہے یا پھر عوام کے لئے بجلی کی قلت دور کی جاسکتی ہے تو ملک بھر کے عوام کا ریفرنڈم کرایا جائے یا پھر ماہرین کو بٹھا لو جو اپنے تجربات اور مشاہدات سے عوام کو بجلی کی قلت اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاپائیں۔
بہرحال پاکستان میں نئے صوبے اور ڈیم عوام کی مرضی سے بننے چاہئے کہ جس میں کسی بھی قوم کا نسلی لسانی کلچرلی تہذبی امور تمدانی نقصان نہ ہو چونکہ پاکستان کے صوبے قدیم زبانوں رسم ورواج تہذیب وتمدن پر قائم ہیں۔ جس کو صرف اور صرف بولیوں پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا ہے کہ فلاں پہاڑی میدانی اور صحرائی قوم ہے تو اس کو اس علاقہ پر مبنی نیا صوبہ بنا دو یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں کی زبانیں کلچر رسم و رواج تہذیر وتمدن صدیوں پرانی ہیں جو مختلف بولیاں لوتے ہیں جن ک یمال سنکسرت ہے جو وادی سندھ کی قدیم زبان ہے۔ جو پاکستان کے اکثریتی آبادی پر کہلاتی ہے جن کو تاریخ دان آرین قبائل قرار دیتے ہیں جو آج پنجابی، سندھی، سرائیکی پوٹھوہاری، کشمیری، گجراتی، راجھستانی اردو بولتے نظر آتے ہیں جن کو صوبوں میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو کبھی پھر بیان کیا جائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here