میں حمید شاہد کی تحاریر اکثر فیس بک پر بہ صد ذوق و شوق پڑھتا ہوں۔ آپ ادبی دنیا کا ایک مستند حوالہ ہیں۔ عصرِ حاضر میں افسانہ نگاری میں آپ صاحبِ مقام ہیں۔ ادبی نقادوں کے حوصلہ شکن رویہ پر ان کی آج فیس بک پر تحریر نے مجھے مجبور کر دیا کہ چند سطور اس ضمن میں لکھوں۔ میں یہ بات خود ستائی کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کشائی کے لیے لکھ رہا ہوں کہ تاحال میری اردو، فارسی اور انگریزی میں شاعری، فلسفہ، سیاسیات، علامہ اقبال ، اسلام ، کشمیر اور عالمی ادبیات و مذاہب کے تقابلی جائزے پر 34 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن پر عالمی سطح کے دانشوروں کی آرا موجود ہیں۔ میری انگریزی نثری کتب میں مستند عالمی شہرت یافتہ شاعروں اور فلسفیوں پر میرے مضامین شامل ہیں جن میں ولیئم شکسپئیر، جان ملٹن، لارڈ بائرن ، ایڈمنڈ سپنسر، رومی، حافظ شیرازی، مرزا غالب ، میر انیس علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض، میاں محمد بخش اور حبہ خاتون قابلِ ذکر ہیں۔ میں یہ بات بڑے فخر سے کہتا ہوں کہ میں نے نئی نسل کے کئی ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں کے نہ صرف دیباچے لکھے بلکہ ان کی شائع شدہ کتابوں پر تنقیدی اور توصیفی مضامین بھی لکھے جن کو اپنی اردو اور انگریزی کتابوں میں بھی شامل کیا تاکہ نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ہو، گزشتہ سال نیشنل بک فائوونڈیشن اسلام آباد نے میری دو کتب شائع کی ہیں، اُردو میں ادبی تبصرے اور انگریزی میںIndependent Ideas ، ان دونوں کتابوں میں نوجوان شاعروں ، افسانہ نگاروں اور دانشوروں پر میری آرا شامل ہیں۔ یہ بات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اکثر شاعر اور ادبی دانشور بخل سے کام لیتے ہیں اورمستند لکھاریوں کی تعریف کرنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں جو کم ظرفی کی دلیل ہے۔
کسی کی جائز تعریف کرنے سے انسان چھوٹا نہیں ہو جاتا بلکہ اس کا ادبی اور علمی قد اور بڑا ہو جاتا ہے۔ حسد کی آگ انسان کی روح کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ میری شاعری کی تعریف و توصیف کئی برس قبل جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد فراز، سید ضمیر جعفری، اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے علاوہ کئی نامور ادبی اور علمی شخصیات نے کی ہے اور مجھ پر اس وقت تک پانچ ایم فِل اور دو پی ایچ ڈی کے مقالہ لکھے جا چکے ہیں اور مزید لکھے جا رہے ہیں لیکن اس کے باجود میں مستحق نوجوان شاعروں اور ادیبوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ میں اسے اپنا ادبی فریضہ سمجھتا ہوں کہ نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جہاں میں نے عالمی شہرت یافتہ فلسفیوں ، شاعروں، اور دانشوروں پر لکھا وہاں یہ بات میرے لیے باعثِ فخر ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ادبی اور علمی شخصیات نے میری علمی اور ادبی خدمات کو سراہا۔ علاوہ ازیں اگر میں نے معاصرین ادبی اور علمی شخصیات پر تنقیدی و تحقیقی رائے زنی کی تو یہ امر میرے لیے صد باعثِ مسرت و مباہات ہے کہ عصرِ حاضر کے نامور ادیبوں ، شاعروں ، نقادوں اور دانشوروں بھی نے مجھ پر کالم اور مقالات لکھے جس کے لیے میں تہہِ دل سے ان کا شکر گزار ہوں، ان میں سے چند شخصیات کا ذکر کرنا فرض سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی بقولِ میر تقی میر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔وزیرِاعظم پاکستان محترمہ بینظیربھٹو،سید عارف، روبینہ فیصل، ڈاکٹر اجمل نیازی، پروفیسر خالدہ ظہور، من موہن عالم،ڈاکٹر فائزہ زہرا،سینیٹر اکرم ذکی،سینیٹر سید سجاد بخاری، میجر رفیق جعفری، بیرسٹر افضل حسین ، اکرم سہیل، حرا کاشمیری، شاکر شمیم، اسد زیدی، ڈاکٹر راشد حمید، پروفیسر کلیم، احسان بٹ، انجم خلیق، پروفیسر حماد خان،ڈاکٹر شازیہ اکبر، ڈاکٹر نثار ترابی، پروفیسر نواب نقوی، ڈاکٹر خواجہ زاہد عزیز، ڈاکٹر علی بیات تہرانی، ڈاکٹر جعفر محجوب تہرانی، ڈاکٹر عبداللہ تہرانی،،سفیرِ تاجکستان شیر علی جانو نوف، اعجاز رحیم ، نیلم بھٹی، ڈاکٹر امبر یاسمین، ڈاکٹر ممتاز منور آف انڈیا، ڈاکٹر فردوس انور، صدف مرزا، ڈاکٹر منور ہاشمی، فاروق عادل، ایٹمی سائینس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، محمد ساجد قریشی الہاشمی، فرزند علی ہاشمی، ڈاکٹر رحمت علی خان چترالی، ڈاکٹر مہناز انجم، ۔ بشیر حسین ناظم، عائشہ مسعود، ڈاکٹر اکرام اعظم، مامون ایمن آف نیویارک، اشرف میاں آف نیو یارک، فاطمہ زہرا جبین آف کینیڈا،، تسلیم احمد زلفی آف کینیڈا، واصف حسین واصف آف نیویارک۔ یہ چند نامور ادبی و علمی شخصیات میں نے بطور مشتے از خروارے پیش کی ہیں۔یہ میرا اعزا ز ہے کہ میری فارسی شاعری پر ایران اور تاجکستان کے نامور شاعروں اور ادبی دانشوروں نے مضامین لکھے ہیں۔ میری انگریزی شاعری اور نثری کتب پر امریکہ اور انگلستان کے کئی نامور دانشوروں نے توصیفی آرا دی ہیں۔ چند کا ذکر کرنا اپنا اخلاقی وظیفہ سمجھتا ہوں ۔ Dr. Andrew James from London,Dr. Francis Zavier from America ,Ms. Emily A. Goblin from Connecticut, USA. Ms. Irene Fisk from England and Ms. Linda Barto from North Carolina, America.
میں یہ اپنا اعزاز سمجھتا ہوں کہ جہاں میں نے قدیم اور جدید شاعروں اور دانشوروں پر دیانت داری سے رائے دی ہے وہاں پرانی اور نئی نسل کے ادبی نقادوں نے میری ادبی اور علمی خدمات کو سراہا ہے۔ یہ تحریر لکھنا کا مقصد ہرگز خود ستائی نہیں بلکہ اس کا مقصد نئی نسل کو باور کرانا ہے کہ بقول
الطاف حسین حالی
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخم ِ جگر کہاں
علم و ادب میں مقام پیدا کرنے کے لئے مسلسل محنت چائیے ۔ اس رہگزر
میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ تعریف اور تنقیص سے بالا تر رہیں۔ قدیم اور جدید اساتذہ کے کلام کا مطالعہ کریں۔ اردو زبان کے ساتھ ساتھ فارسی اور انگریزی زبان اور ادبیات کا مطالعہ کریں اس سے آپ کی زبان و بیان اور فکر و نظر میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو گی۔ اپنی نئی نسل کے بارے میں آج بھی میں علامہ اقبال کا ہمنوا ہوں جنہوں نے کہا تھا
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز سے ساقی
٭٭٭













