ابن خلدون اور حالات حاضرہ !!!

0
16
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ہر چند آپ سے بہت سی دل کی باتیں کرنے کا دل چاہتا ہے علوم مخفیہ ہوں یا علوم سیارگان فالنامہ ہو یا دیگر اسم اعظم سے متعلق مقالہ جات میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں سکون قلب صرف اور صرف اللہ کے زکر میں ہے اور اللہ کے خاص بندوں سے قربت میں ہے جو آپ کے درمیان درویشانہ زندگی گزارتے ہیں ،ان کو آپ سے کچھ مطلوب نہیں ہوتا سوائے آپ اللہ کی راہ پر گامزن ہوجائیں کیونکہ اس دنیا میں انسان خالی ہاتھ آیا ہے اور یہاں سے خالی ہاتھ ہی جانا ہے ساتھ کچھ نہیں جاتا بس کامیاب وہ انسان ہے جس نے اللہ کو راضی کرلیا ۔
مذکورہ بالا تمہید کی روشنی میں مشھور تاریخ داں دانشور اور محقق کی موجودہ حالات سے تشبیہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، سال کا آخری مقالہ اس کے بعد نیا سال ہوگا نئے مقالہ جات آپکی نظر ہونگے اور جو بھی ڈیمانڈ رہی اس کے مطابق آپ کو ہر طرح کے علوم پر سیر حاصل معلومات دی جائینگی ،میری دعا ہے نیا سال آپکے لیئے خوشیاں لے کر آئے اور آسانیاں عطا ہوں کہ دنیا اب ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے ،ہر طرف جنگ وجدل اور خون خرابہ نظر آرہا ہے جبکہ کمزور انسان کو جان مال و عزت بچانا مشکل ہورہا ہے، لوگ معاشی طور پر پریشان حال ہیں ۔ اب آپ ابن خلدون کی تحریر پڑھیں ،باقی باتیں تو سارا سال ہوتی ہی رہیں گی،سات سو سال قبل لکھی گئی ابن خلدون کی یہ تحریر گویا مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے۔مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے، اس کے تمام حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتی کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتوی فروش فقہیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے ۔ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا ، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے “ہجرت”، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں۔اللہ تعالی ابن خلدون کے درجات بلند فرمائے۔۔ سات صدیاں قبل وہ دیکھنے کے قابل تھے جو ہم آج بھی دیکھنے سے قاصر ہیں!اس کے ساتھ ہی تمام قارئین کیلئے دعائیں و نیک تمنائیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here