فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین!پچھلے آرٹیکل میں سیّدنا ابوبکر صدیق خلیفہ بلافضل خلیفہ اوّل، افضل البشربعد الانبیاء رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شان کا اندزہ آیات طیبات وبیّنات سے کیا گیا اور اس آرٹیکل میں ہم احادیث مبارکہ کی روشنی میں آپ کی عظمت وشان جانیں گے۔ بہرحال اللہ پاک نے جو مرتبہ ومقام آپ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا ہے اس کا اندازہ کرنا طاقت بشریہ سے باہر ہے۔ تقریباً تین سو سولہ احادیث مبارکہ میں اللہ کے نبیۖ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کو بیان فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی قدر ہے کہ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر مجھ پر اپنی صحبت اور اپنے مال سے احسان کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔(مشکوٰة شریف ص554)
مزید ارشاد فرمایا: جس کسی کا بھی مجھ پر احسان تھا میں نے ہر ایک کے احسان کا بدلہ چکا ہے سوائے ابوبکر کے کہ میں نے اس کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکایا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے احسانات کا بدلہ سے طرف سے اسے قیامت کے دن عطا فرمائے گا اور کسی کے مال سے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچا جتنا ابوبکر صدیق مال سے پہنچا اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو یقیناً میں ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا لیکن سن لو کہ میں اللہ کا خلیل ہوں۔(مشکوٰة شریف ص555)اللہ اکبر! صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جاں نثاری رسولۖ کے قربان جایئے۔ اللہ کے محبوب، تمام عالم کے محسن اعظم، رحمت عالمۖ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس ابوبکر کا اس قدر ممنون ہوں کہ میں نے اس کے احسانات کا بدلہ دنیا میں نہیں دیا ہے بلکہ خلاق عالم جلّ جلالہ، میری طرف سے ابوبکر کو اس کے احسانوں کا بدلہ قیامت کے دن عطا فرمائے گا۔اسی طرح بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ جب حضور اقدسۖ سخت علیل ہوئے تو فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سّیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میرے باپ ابوبکر بہت ہی نرم دل آدمی ہیں۔ وہ آپ کی جگہ کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ پھر حضورۖ نے فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ میری جگہ نماز پڑھائیں۔ حضرت امّ المئومنین سّیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے پھر وہی عذر پیش کیا۔ تو حضورۖ نے عتاب فرمایا اور پھر تاکید کے ساتھ یہی حکم ارشاد فرمایا: کہ ابوبکر سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصّلوٰة والسّلام کی حیات مبارکہ میں آپ کے مصلّٰی امامت پر امامت کی اور کئی دنوں تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحیحین کی یہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمرہ، حضرت ابوسعید صفدری، حضرت عبداللہ بن زمعہ، حضرت علی بن ابی طالب وغیر ھمہ رضی اللہ عنھم سے مروی ہے۔ اور بعض شارحین حدیث نے اس حدیث کو متواتر بتایا ہے۔ اور علماء حق نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ حدیث مبارکہ بہت ہی واضح طور پر دلالت کرتی ہے بلکہ تفریح کرتی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مطلقاً تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان سے افضل اور خلافت وامام ہونے کے لئے سب سے زیادہ مستحق اور اولیٰ ہیں۔
یہی تو وجہ ہے کہ امیر المئومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں۔ اور اگرابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کو اور تمام روئے زمین کے مئومنین کے ایمان کو وزن کیا جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کا پلڑا غالب اور بھاری رہے گا۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سینے کا بال ہوتا۔(تاریخ الخلفاء ص59) اسی طرح روایت ہے کہ ایک مرتبہ اسد اللہ الغالب حضرت علی بن ابی طالب کرّم اللہ وجہہ الکریم آپ کے پاس سے گزرے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک کپڑا اوڑھے ہوئے بیٹھے تھے۔ مولیٰ کائنات رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا کہ کوئی نامہ اعمال والا جو اللہ سے ملاقات کرے گا میرے نزدیک اس کپڑا اوڑھنے والے شخص سے زیادہ محبوب نہیں۔(تاریخ الخلفاء ص59) ساتویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضور اقدس ۖ سے مل جاتا ہے۔ آپ عام الفیل کے اڑھائی برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ قبیلہ قریش میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک بہت ہی ممتاز شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ زبیر بن بکار اور ابن عسا کرنے یہ فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قریش کے ان گیارہ منتخب اشخاص میں سے ہیں جن کو زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں شرف حاصل رہا ہے۔ چنانچہ آپ زمانہ جاہلیت میں خونی بہا اور جرمانوں کے مقدمات کا فیصلہ فرماتے تھے جو دور جاہلیت کا بہت بڑا اعزاز تھا۔ آپ طبعاً اس قدرباوقار اور صاحب مروت تھے کہ آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرح زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہیں پی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭