پی ٹی آئی کا احتجاج اور ملک کی بگڑتی صورتحال!!!

0
49
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پی ٹی آئی کی طرف سے 24 نومبر کواسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے کے اعلان کے بعد اسلام آباد کو کنٹینرز کا شہر بنا دیا گیا ۔ اس وقت ملک میں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ دونوں کی لیڈر شپ بہت تجربہ کار اور سرد و گرم چشیدہ ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے جناب نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ آگے بڑھ کر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے بات کریں اور ملک کو اس پیچیدہ صورت حال سے باہر نکالنے کا کوئی راستہ تلاش کریں۔ موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ ذمہ داری مسلم لیگ (ن)کی لیڈرشپ پر آتی ہے ۔دگرگوں سیاسی حالات کی وجہ سے آج کل اس ملک کا ہر شہری پریشان نظر آتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے دارالخلافہ لاہور کو بھی کنٹینرز سے بند کر دیا گیا جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عوام رل گئے اور سڑکوں پر دھکے کھاتے پھرتے ہیں ۔ میرے جاننے والے کسی ضروری کام سے ایک دو روز پہلے اسلام آباد گئے تھے لیکن ان کی واپسی ممکن نہ ہو سکی، ایک ایک لمحہ رستے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔پورے ملک کی عجب اور پریشان کن صورت حال ہے ملک کے سب سے بڑے صوبہ کی وزیر اعلی مسلم لیگ (ن)کی مریم نوازشریف ہیں اور ملک کے وزیراعظم ان کے چچا جناب شہباز شریف ہیں ۔اس خاندان کے بڑے جناب نواز شریف ہیں جو سیاسی میدان کے بڑے تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔ انھیں چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں۔موجودہ صورت حال ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہے جس کے منفی اثرات زندگی کے ہر شعبہ میں واضح نظر آنے لگ گئے ہیں ۔معا شی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جو روز بروز دگرگوں صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کو آگے بڑھ کر پی ٹی آئی کی اعلی قیادت سے رابطہ کرنا چاہیے ۔ مجھے یقین ہے کہ مسلم لیگ(ن)کی جہاندیدہ اور تجربہ کار لیڈر شپ اگر اس سمت بڑھنے کی کوشش کریگی تو ضرور کوئی نہ کوئی مثبت نتائج سامنے آئیں گے ۔ پورے ملک اور خصوصا صوبہ خیبر پختونخوا و صوبہ بلوچستان میں صورت حال روز بروز خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے منطقی نتائج کسی صورتمیںبھی ملک کی معاشی اور سلامتی کی صورت حال کے لیے مثبت نہیں ہو نگے ۔ ذہن میں یہ عنصربھی رہنا چاہیے کہ بین الاقوامی طور کچھ طاقتیں ہمارے ملک کی سلامتی کے در پے ہیں اور موجودہ صورت حال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔ لہذا، ہمارے ملک کی سیاسی لیڈرشپ کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے ۔ پی ٹی آئی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو سیاسی طور پر بڑے جہاندیدہ ہیں اور موجودہ دگرگوں حالات کو سمجھتے ہیں ۔ انھیں بھی آگے بڑھ کر حالات کو سنبھالنا چاہیے اور کوشش صلح جوئی کی طرف ہونی چاہیے ۔ ملک میں امن و امان اور یک جہتی ہی خوشحالی کا پیش خیمہ ہے ۔ موجودہ صورت حال پر جب دنیا کی نظر پڑتی ہو گی تو کیا امیج ابھرتا ہو گا ۔ عمران خان ایک پاپولر رہنما ہیں اور ان کی حب الوطنی میں کسے شبہ ہو سکتا ہے۔نظریاتی اختلافات تو سیاست کا حسن ہوتے ہیں ۔ ہم نے ان کی حکمرانی کا دور بھی دیکھا ہے۔ اس لحاظ سے ان کا دور کسی طور بھی قابل ستائش نہیں تھا ۔ بزدار جیسے شخص کے ہاتھوں میں ملک کا سب سا بڑا صوبہ دے دینا کہاں کی دانشمندی تھی۔ لیکن ان تمام کمزوریوں کے باوجود ان کی حب الوطنی پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے وہ ہر دلعزیز لیڈر ہیں ۔ مسلم لیگ (ن)کی لیڈر شپ اپنے ملک کی سب سے زیادہ جہاندیدہ اور تجربہ کار ہے لیڈر شپ ہے ۔ اس لحاظ سے ان پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں امن و آشتی لانے کی ہر کوشش کریں۔ اس سلسلے میں ان کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پورے ملک میں سیاسی یگانگت اور اپنائیت کی فضا قائم ہونی چاہیے ۔یقین کریں ، اس سے ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہوگی اور ملک میں ترقی کی راہیں کھل جائیں گی ۔نواز لیگ میں کچھ جونئیرلیڈر شپ ایسی ہے جو اس بھائی چارہ کو بگاڑنے میں کافی کردار ادا کرتی ہے ۔ بہرطور ، مسلم لیگ (ن)کی سینئر لیڈر شپ خاصی سمجھ دار ہے ۔ انھیں چاہیے کہ وہ اس جونئیر لیڈرشپ کو کنٹرول میں رکھا کریں تاکہ ملک میں اور خصوصا پارٹی میں ایک بہتر فضا قائم رہے ۔عمران خان ایک اپنی نوعیت کا کردار ہیں جو اپنی کئی خوبیوں کی وجہ سے عوام میں پاپولر ہیں ۔ خان صاحب بنیادی طور پر انسانیت سے پیار کرنی والی شخصیت ہیں جس کی واضح مثال ان کا شوکت خانم ہسپتال ہے جس میں کینسر جیسا مہنگا علاج آج بھی غریبوں کے لیے مفت ہو رہا ہے ۔خانصاحب کی انسان دوستی کی اور کونسی مثال سامنے لائی جائے ۔اب توحکومت پنجاب بھی میاں نواز شریف کینسر ہسپتال لاہور میں بنا رہی ہے جو کہ ایک اچھا شگون ہے ۔ اللہ توفیق دے ۔ ان کے دور حکومت میں ہم ان پر بہت تنقید کرتے رہے ہیں اور تنقید بھی نہایت جائز ۔ اب تو وہ جیل میں ہیں اور بڑے سخت دن گزار رہے ہیں ۔ وہ ایک سیاسی قیدی ہیں اور ان سے جیل میں سلوک بھی بطور سیاسی قیدی ہونا چاہیے۔لوگ کہتے ہیں کہ جیل بھی ایک ایسا ادارہ ہے جو لوگوں کو زندگی کے کئی اسباق سکھا دیتا ہے اور لوگ جب جیل سے باہر آتے ہیں تو ان میں واضح تبدیلی آ چکی ہوتی ہے ۔ امید ہے کہ خان صاحب جیل سے جب باہر آئیں گے تو بہت کچھ سیکھ چکے ہونگے ۔اللہ کرے ان میں یہ تبدیلی ملک و قوم کی بہتری کے لیے ہو ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here