”زبان کی حفاظت”

0
145

عربی کا ایک شعر ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے تو خاموشی کی بیماری سے مر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو بولنے کی بیماری سے مرے دنیا میں بہت سی آفتیں اور باہمی تعلقات میں خرابی صرف اس وجہ سے آتی ہیں کہ ہم زبانوں کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں کہ جو دل میں آئے بولتے چلے جائیں مثلا غیبت کرنا،بہتان لگانا ،لوگوں کو برا بھلا کہنا، مذاق اُڑانا ،طعن و تشنیع سے کام لینا یہ سب وہ چیزیں ہیں جو انسان کے درمیان اختلاف اور دشمنیاں پیدا کرتی ہیں اور ان سب کے اظہار کا ذریعہ زبان ہی ہے ایک زبان کو انسان لگام دے لے اور سوچ سمجھ کر استعمال کرے تو خرابی کے بہت سے دروازے بند ہو جاتے ہیں دلوں میں جو بدظنی پیدا ہوتی ہے وہ بھی زیادہ خرابی کا باعث اسی وقت بنتی ہے جب زبان ان کا اظہار شروع کر دیتی ہیں۔ خاص کر وہ لوگ جنھوں نے دوسروں کی خیر خواہی کو اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ بنا رکھا ہو تو وہ خود بھلا ایسے ناپسندیدہ افعال کا ارتکاب کیسے کر سکتے ہیں مگر شیطان دین داری کا فریب دیگر دین کے خلاف عمل کروا لیتا ہے الاسلام امام غزالی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب احیا العلوم میں مختلف اخلاقی بیماریوں کے اسباب کی تحقیق کی ہے اور پھر ان کے علاج لکھے ہیں اس سلسلے میں آپ نے غیبت کے اسباب پر بھی بحث کی ہے یہاں صرف اس کے خلاصے کو سمجھ لینا مفید ہوگا حضرت فرماتے ہیں کہ غیبت کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں مثلا نمبر ایک ۔انسان کو جب کسی شخص کی بات پر غصہ آتا ہے اور وہ غصے کو ضبط نہیں کر سکتا تو خامخوا اس شخص کے عیوب زبان پر آنے لگتے ہیں اگر کسی وجہ سے وہ غصے کا اظہار نہ کر سکے تو غصہ گھٹ کر رہ جاتا ہے اور ہمیشہ اس شخص کو غیبت پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ نمبر دو ۔انسان کو جب اس بات کا شبہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اسے بد نام کرنا چاہتا ہے تو حفظ ماتقدم کے طور پر وہ پہلے خود اس کے عیوب ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ نمبر3 کسی مجلس میں جب پہلے ہی کسی کی غیبت ہو رہی ہو تو نئے آدمی کو بھی خواہ مخواہ اس میں شریک ہونا پڑتا ہے اگر وہ ان کو ٹوکے یا چھپ بیٹھا رہے تو تمام لوگ لوگوں پر بار ہوتا ہے۔ نمبر چار ۔انسان پر جب کوئی غلط الزام لگایا جاتا ہے اور وہ اس سے اپنی برات ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس شخص کا نام لے لیتا ہے جو اس الزام کا مرتکب ہوتا ہے حالانکہ اس کو صرف اس کی اپنی برات پر قناعت کرنا چاہیے۔ نمبر پانچ ۔اپنا کمال ثابت کرنے کے لئے دوسروں کی براء یا کمی بیان کی جاتی ہے۔ نمبر 6 کسی کی عزت اور شہرت سے جی جلتا ہے تو لوگوں کے دلوں سے اس کی وقعت کم کرنے کے لئے اس کے عیوب بیان کیے جاتے ہیں۔ نمبر7 محض مذاق اور دل بہلانے کے لیے دوسروں کے عیبوں کا خاکہ اڑایا جاتا ہے۔ نمبر8 ۔ کسی کا تمسخر اور استہزا مقصود ہوتا ہے۔ نمبر 9 کوئی دیندار آدمی جب کسی کو کوئی برا کام کرتے دیکھتا ہے تو اسے تعجب ہوتا ہے اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اس شخص کا نام زبان پر آجاتا ہے مثلا وہ کہتا ہے کہ مجھے سخت حیرت ہوتی ہے کہ فلاں شخص باوجود کمال دی دار ہونے کے ناچ گانے کی محفل میں شرکت کرتا ہے۔ نمبر10 بعض اوقات کسی اچھے آدمی کو کوئی گناہ کرتے دیکھ کر اس پر رحم افسوس آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ زید نے غلط کام کیا جو اس کے رتبے اور شان کے خلاف ہے نمبر 11 ۔ بعض اوقات دل میں جذبہ یہی ہوتا ہے کے لوگوں کو اچھی باتوں کی طرف بلائے اور اس سلسلے میں کسی گناہ کا ارتکاب کرنے والے شخص کا نام لے کر جذبات ظاہر کیا جاتا ہے۔ ان گیارہ اسباب میں سے آٹھ اسباب کے بارے میں حجت الاسلام فرماتے ہیں کہ ان کا تعلق عام لوگوں سے ہے اور آخری تین اسباب کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ان کا تعلق مذہبی گروہوں سے ہے مگر اس بات پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ان تینوں صورتوں میں غیبت کرنے والوں کو یہ دھوکا ہوتا ہے کہ میں غیبت نہیں کر رہا بلکہ مذہبی فریضہ ادا کر رہا ہوں حالاںکہ اس فرض کے ادا کرنے میں کسی شخص کا نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی حجت السلام کا یہ بیان ایک طرف تو واضح کرتا ہے کہ غیبت جن اسباب سے ہوتی ہے ان اسباب کو ختم کیا جائے اور دوسری طرف بڑی خوبصورتی سے اس حقیقت کی عکاسی کر دیتا ہے کہ کس طرح بعض اوقات دیندار لوگ بھی کرتے تو غیبت ہی ہیں مگر ہوتے ہیں اس غلط فہمی میں کہ ہم تو لوگوں کو برے اعمال سے بچے رہنے کی ہدایت کر رہے ہیں حالانکہ لوگوں کو برے اعمال سے بچنے کی ہدایت کرنے کے لئے اس غیبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ لوگوں کے نام لے کر ان کے عیب بیان کئے جائیں اور اس طرح معاشرے میں انہیں رسوا کرنے کا بندوبست کیا جائے
اب اگر ایسا ہی طرز عمل اپنے کسی ساتھی کے بارے میں اختیار کیا جائے تو جب بات اس کے کانوں میں پہنچے گی تو اس کا دل دور ہی ہوگا قریب تو نہیں آئے گا ۔ یعنی زبان کی حفاظت نہ کر کے اپنے ہی صفوں میں انتشار پیدا کیا گیا امام غزالی نے غیبت کے جتنے اسباب یہاں بیان کئے ہیں ان میں سب پر غور کیا کر کے دیکھنا چاہیے کہ ان میں کوئی ایک سبب بھی ایسا ہے جو اس شخص کی شایان شان ہو سکے جو دوسروں کو نیکی کی طرف بلانا چاہ رہا ہے غیبت کے بارے میں ایک عجیب منطق اور سنی جاتی ہے کہ بعض لوگ اسے غیبت کہنے کے بجائے دور اندیشی کا نام دیتے ہیں جب انہیں اپنی بات کرنے پر ٹوکا جائے تو کہتے ہیں کہ ہمارا مطلب کسی کی برائی کرنا ہرگز نہیں ہم تو دور اندیشی کر رہے ہیں کہ فلاں شخص ایسے ایسے کیوں کرتا ہے جبکہ ایسا کرنے سے اس کی دنیا کی عزت بھی خطرے میں ہے اور آخرت میں بھی عذاب ملے گا ۔ اس شخص کا تو واقعی خیراندیش ہوتا ہے جس کی وہ برائی کر رہا ہوتا ہے مگر خود اپنا بدن اندیش ہو جاتا کیوں کہ جو شخص کسی کی غیبت کرے اس نے زندگی میں جو نیکیاں کی ہوتی ہیں وہ اس شخص کو مل جاتی ہیں جس کی وہ برائی کر رہا ہوتا ہے حضرت خواجہ حسن بصری کو ایک دفع خبر پہنچی کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے آپ نے کھجور کی ایک تھال اس کو ہدیہ بھیجا ساتھ ہی یہ پیغام دیا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے اپنی نیکیاں میرے نامہ اعمال میں منتقل کر دی ہیں اس احسان کا بدلہ دینے کی مجھ میں استطاعت نہیں ہے اس لیے صرف یہ کھجوریں نظر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں ! یہ کیا بیوقوفی کی بات ہے کہ انسان محنت کرکے نیکیاں کمائے اور پھر اس کے حوالے کر دے جو اسیاچھا نہ لگتا ہو پھر یہ بھی کہ دوسروں کی خرابیاں عموما اس وقت زیادہ نظر آتی ہے جب انسان خود اپنے عیوب کی طرف توجہ نہ دے اگر زیادہ توجہ اپنی اصلاح کی طرف رہے تو پھر ساتھیوں کے نقائص زیادہ نظر بھی نہیں آتے ہیں ایک شخص نے حضرت ذوالنون مصری رحم اللہ علیہ سے کہا کہ مجھے کوئی اسی وصیت کیجئے جو ہمیشہ میرے کام آتی رہے انہوں نے فرمایا بس یہ خیال رکھنا کہیں لوگوں کو عیوب کی جھان بین تم کو اپنے عیوب سے غافل نہ کردے، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر ہے نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی خطاں پہ جو ہیں نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
مومن کے کردار کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک زبان کی کا محتاط استعمال ہے باتیں جتنی زیادہ کی جائیں گی نا پسندیدہ باتیں کر جانے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوجاتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق اپنی زبان کی نوک کو بار بار پکڑتے ہوئے فرماتے اس نے بہت جگہ پھنسایا ۔ آپ فرماتے تھے مصیبت کی جڑ بنیاد انسان کی گفتگو ہے حسن بصری فرماتے ہیں عقلمند کی زبان دل کے پیچھے ہی ہوتا ہے اگر وہ بات فائدے کی ہوتی ہے تو کہتا ہے ورنہ رک جاتا ہے اور جاہل کا دل اس کی زبان کی نوک پر رہتا ہے وہ دل کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ جو کچھ زبان میں آتا ہے بول جاتا ہے، اللہ ہم سبھوں کو اپنی زبان کے شر سے دنیا وآخرت میں محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here