گمشدہ افراد اور نامعلوم افراد! !!

0
72
پیر مکرم الحق

1980 کی دہائی سے کراچی شہر میں ہونے والی اکثر جرائم کی واردات کو نامعلوم افراد سے منسوب کیا جانے لگا۔ پہلے پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ نئی منظر عام پر آنے والی جماعت مہاجر قومی تحریک ہی ان واقعات کی ذمہ دار ہے۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن(APMSO) کے بانی الطاف حسین کے ذریعے نواب مظفر کے ذریعے بننے والی جماعت پختون، پنجابی مہاجر جماعت کی ناکامی کے بعد پہلے اے پی ایم ایس او(APMSO) بنوائی گئی اس زمانے میں کراچی سے پیپلزپارٹی کے کافی نمائندے منتخب ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ضیا اس صورتحال سے خائف تھا کہ اگر کراچی میں پیپلزپارٹی اپنی اکثریت کو برقرار رکھتی ہے تو حکومت(مارشل لائ) کو کافی مصیبت ہوگی، اسلئے اس نے اپنے ایک سندھی وزیراعلیٰ کی ڈیوٹی لگائی کے کچھ لے دے کر ایسی جماعت بنائی جائے جوکہ سندھی بولنے والوں کے بجائے فقطہ اردو بولنے والوں پرمشتمل ہو اور پھر یہ لسانی عصبیت کا زہر سندھ میں گھول دیا، دوسری طرف ضیا سندھی قوم پرستوں کی ہمدردی بھی حاصل کرنے کیلئے جی ایم سید جو نظربندی کے دوران ہسپتال میں داخل تھے انکے پاس پھولوں کے گلدستہ سمیت پہنچ گئے لیکن جی ایم سید منجھے ہوئے سیاستدان تھے انہوںنے ایسی مصنوعی خوشامد کو ضیاء کی منافقت سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دی حالانکہ ان کو شہید بھٹو سے بہت شکایت تھی لیکن انہوں نے اپنے خاندانی روایات کو اہمیت دی اور سر شاہنواز بھٹو سے اپنی رفاقت کو ملحوظ خاطر رکھا اور جنرل ضیاء کا آلہ کار بننے سے احتراز کیا لیکن اسکی وجہ سے انہیں اپنی جماعت میں دھڑے بندی برداشت کرنی پڑی۔ جی ایم سید کسی سیاسی سوچ سے اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن وہ اصولوں کی سیاست کے حامی تھے۔1973ء کے لسانی فسادات کے خالی غباروں میں پھر ہوا بھری گئی اور اس طرح ضیاء اس نفرت کی سیاست کو طلبہ جماعت سے باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہوگئے جس کو مہاجر قومی تحریک کا نام دیکر مڈل کلاس مہاجرین کی سیاسی جماعت نام دیدیا گیا۔ الطاف حسین جو اس سے پہلے سائیڈل پر ٹیکہ(Vaccime) لگانے کا کام کرتے تھے جلد ہی ڈان بن گئے اور پھر بوری بند لاشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر مہاجروں کو پختونوں سے ٹکرا گیا اور کراچی انسانی لہو سے سرخ ہوگیا۔ کراچی میں بڑوں سے آباد اردو نہایت اچھے لہجے میں بات کرتے تھے انہوں نے قبائلی علاقہ سے اپنی دوستوں اور رشتہ داروں کو مدد کیلئے بلوالیا پھر کراچی میدان جنگ بن گیا۔ اور کشت وخون کی ہولی کھیلی گئی۔ اسی دوران ”نامعلوم افراد” بھی میدان میں اتار دیئے گئے اور کراچی کے لوگوں نے گھر سے باہر سونا چھوڑ دیا۔ جو گنجان علائقہ میں گرمی سے تنگ آکر دروازہ سے باہر چارپائی ڈال دیتے وہ تھوڑا گروپ کے ڈر سے چار پایاں گھر میں لے گئے اور دروازوں پر تالے ڈال دیئے اس زمانے میں لیاری بھی پیپلزپارٹی کا مضبوط قلعہ تھا پھر وہاں بھی نامعلوم افراد گھس گئے اور پھر ہماری جہاں اکثریت بلوچوں کی تھی وہاں نشے کو عام کردیا گیا جہاں سے باکسر اور فٹ بالر پیدا ہوتے تھے وہاں گینگ وار شروع ہوگئی۔ منصوبہ سازوں کا یہی مقصد تھا کہ کراچی سے پی پی پی کو نکال دیں تاکہ پارٹی شہروں میں کمزور ہو دیہات میں اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو”جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا” لیاری میں جب گینگ وار عروج پر پہنچی تو بلوچستان کے فراری لیاری میں آکر پناہ لینے لگے۔ جنرل مشرف کے دور میں پہلے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بلوچ جنرل بنایا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کو ترقی دیکر انہیں بلوچستان کا کور کمانڈر لگایا گیا پھر انہیں اکبر بگٹی کو ختم کرنے کا حکم دیا جس پر انہوں نے انکار کیا کہ اس سے بلوچستان میں فوج کیخلاف نفرت عروج پر نہیں پہنچے گی اور ایسا کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں پھر انہیں قادر بلوچ کو کورکمانڈر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور گورنر بلوچستان لگا دیا گیا جب جنرل قادر نے گورنر ہائوس میں بلوچوں کی نمائندگی کی بات کی وہ بھی جو لوگ کئی برس سے کچے ملازم تھے اور پنجاب سے لوگوں کو بلا کر پکی نوکریاں دینگئیں تو جنرل قادر نے کہا کہ پہلے سے کام کرنے والے چھوٹے ملازمین(بلوچوں) کو مستقل کیا جائے پھر دوسرے لوگوں کی باری آئیگی۔ تو پھر جنرل قادر بلوچ کو گورنری کے عہدے سے بھی فارغ کر دیاگیا۔
جنرل قادر بلوچ سے کئے جانے والا ناروا سلوک اور اکبر بگٹی کے قتل نے بلوچوں میں پرانے زخموں کی نمک پاشی کا احساس پھر سے عود کر گیا۔ کافی مدت سے اغواء کئے گئے بلوچوں کی بازیابی کا مطالبہ پھر سے شدت پکڑتا گیا۔ جب بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ڈی جی فرنیٹر کاسٹلبری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تو عدالت کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور آج تک ہر اقتدار میں آنیوالے سیاستدان نے گمشدہ لوگوں کی بازیابی کو اپنی حکومت کا پہلا قدم بنانے کا وعدہ کیا لیکن عمل پیرا کوئی نہ ہوسکا۔ اب بلوچستان کے لوگوں کے پاس احتجاج ہی واحد راستہ رہ گیا ہے۔ ان کی نوجوان قیادت میں سے بالاچ بلوچ کو جعلی پولیس مقابلہ میں شہید کر دیا گیا ہے اب تک نڈر خاتون ماہرنگ بلوچ اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔ جس کا باپ اور بھائی دونوں اٹھا لیا گیا تھا والد کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ اندھا ہوگیا اور بھائی اب تک واپس نہیں آیا۔ آج نگران وزیراعظم بھی بلوچستان کے کاکڑ پٹھان ہیں اور چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی صاحب بھی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاکڑ صاحب نے تو اپنی بے بسی کا اظہار کردیا اب بلوچستان کے مظلوم عوام کی امید چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیٰسی سے منسلک ہے۔ یہی ہم سب کی آخری امید بھی ہے۔ جبکہ گمشدہ افراد کے خاندان کے افراد اسلام آباد کی شدید سردی میں چھوٹے بچوں اور خواتین کو اسلام آبد پولیس کے باوردی افسران نے تھپڑوں کی بارش کرکے اپنی مردانگی اور بہادری کا جو ثبوت دیا۔ وہ بھی پاکستان کے دارالخلافہ کی تاریخ میں ایک شرمناک باب بن کر رہ گیا ہے۔سوشل میڈیا اس لٹے پٹے قافلہ کو (را) کا ایجنٹ قرار دیکر پیسہ بٹور رہا ہے۔ نامور صحافی حامد میر واحد رپورٹر ہیں جنہوں نے قدم قدم پر اس قافلہ مظلومین کا ساتھ دیا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here