جان ومال کا صدقہ !!!

0
116
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

بسا اوقات ہمارے مال کا ناگہانی طور پر نقصان ہوجاتا ہے یا جیسے آج کل پاکستان میں سٹریٹ کرائم زوروں پر ہیں۔ راہ چلتی خواتین کے پرس چھین لئے جاتے ہیں یا آدمی بنک سے پیسے لیکر نکلا۔ باہر غنڈوں نے گن پوائنٹ پر پیسے چھین لئے یہ کوئی اچھی بات نہیں ،ارباب اختیار کو نوٹس لینا چاہئے اور مخلوق خدا کو صاف ستھرا ماحول دینا چاہئے۔ یا راہ چلتے ٹکر لگ گئی گر گئے معمولی زخم آگئے۔ یا موٹرسائیکل پر ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ یا موٹر کار الٹ گئی معمولی چوٹیں آئیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جان ومال کا جو نقصان ہوا ہے وہ یوں سمجھ کر برداشت کر جائیں کہ جان ومال کا صدقہ نکل گیا۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب ہے لیکن جب آپ اس حکمت پر غور کریں گے تو بارگاہ ایزدی میں سجدے کرنے کو دل چاہے گا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حفاظتی تدابیر اختیار نہ کی جائیں۔ حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہر شہری کا فرض ہے اور حکومت وقت کی ڈیوٹی ہے میں تو ان کی بات کر رہا ہوں۔ جو بے چارہ پیسے نکلوا کر گھر کا راشن خریدنا چاہتا تھا یا بچوں کی کتابیں خریدنا چاہتا تھا یا موٹرسائیکل پہ کسی شادی پر جارہا تھا۔ مگر نہ پہنچ سکا۔ راشن اور کتابیں نہ خرید سکا وہ یہ سوچ کر برداشت کرلے کہ میری جان اور مال صدقہ نکل گیا، میں آپ کو مولانا جلال الدین رومی کی لکھی ہوئی ایک مثال پیش کرتا ہوں، آپ فرماتے ہیں ایک شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی حضور مجھے جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ مجھے یہ فن عطا کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا یہ شوق اچھا نہیں چھوڑ دو اس کے پیچھے مت پڑو۔ لیٹ گیا حضور آپ کلیم خدا ہیں آپ کا کیا جاتا ہے بارگاہ ایزدی سے اجازت لے لیجئے حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اجازت طلب کی اجازت مل گئی۔ آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا۔ معجزاتی طور پر وہ جانوروں کی بولیاں سمجھنے لگ گیا۔ اس نے ایک کتا اور مرغ پال رکھا تھا۔ مالک کی خادمہ نے دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر گرا کتا اور مرغ دونوں دوڑے مرغ نے وہ ٹکڑا اٹھا لیا کتے نے کہا یار میں بھوکا ہوں۔ مجھے کھا لینے دیتے تُو تو دانے دنکے سے بھی پیٹ بھر لے گا۔ مرغ نے کہا فکر نہ کر کل ہمارے مالک کا بیل مر جائے گا۔ پیٹ بھر کے گوشت کھا لینا۔ مالک نے جیسے ہی سنا بیل فوراً بیچ دیا وہ دوسرے دن خریدار کے گھر میں مر گیا۔ مالک بڑا خوش، کتے نے کہا بڑے جھوٹے ہو۔ مجھے بھوک کی قیامت میں رکھا۔ مرغ نے کہا میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ مالک بڑا چالاک ہے۔ اس نے ہماری باتیں سن لی تھیں۔ چلو کوئی بات نہیں کل اس کا گھوڑا مر جائے گا، کسر نکال لینا۔ اس نے بات سن کر اسی وقت گھوڑا بیچ دیا ،دوسرے دن خریدار کے گھر میں گھوڑا بھی مر گیا، یہ بہت خوش۔ اب تو کتا غصہ میں پاگل ہوگیا۔ مرغ نے کہا غصہ مت کر اگر بیل اور گھوڑا مالک کے گھر مر جاتے تو ہمارے مالک کی جان کا صدقہ ہوتے۔ اب یہ خود مر جائے گا بڑی دیگیں پکیں گی، پیٹ بھر کے کھا لینا، اب بھاگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آپ نے فرمایا مجھے پہلے ہی دکھا دیا گیا مگر تم باز نہیں آئے ،اب اپنی موت کے لئے تیار ہوجائو۔ میرے عزیزو، بچوں اور پیارے ساتھیو جان ومال کا صدقہ سمجھ کر برداشت کر جائو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here