ہم آج اپنا کالم لکھنے بیٹھے ہیں تو ہمیں لاہور میں ہونیوالی دوسری اسلامی عالمی کانفرنس شدت سے یاد آرہی ہے، شہید بھٹو کی میزبانی میں فروری 1974ء میں منعقدہ اس عظیم الشان کانفرنس میں شاہ فیصل، انور سادات، کرنل قذافی، یاسر عرفات، شیخ صباح، حواری (بومدین) ایدی امین و تُن عبدالرزاق جیسے با اثر سربراہان کے علاوہ 36 ممالک کے اہم نمائندگان شریک تھے۔ مسلم اُمہ کے اس عظیم الشان اجتماع و اتحاد کے موقعہ پر مہدی ظہیر کی آواز میں انقلابی نغمہ، اللہ اکبر ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی مصطفوی مصطفوی ہیں”۔ ریلیز ہوا تھا اور ہر پاکستانی کی زبان پر تھا، ہم نوجوانی کے جوش جذبہ ایمانی اور شہید بھٹو کی محبت میں سرشار اس نغمے کو نہ صرف بار بار سنتے تھے بلکہ خود بھی بلند آواز اور جوش و جذبے سے گاتے تھے، اس خیال سے کہ اب مسلم بلاک و تھرڈ ورلڈ اتحاد کے ناطے امت مسلمہ کا بھی دنیا میں اہم مقام و احترام ہوگا جیسا کیمونسٹ ورلڈ (یو ایس ایس آر) اور ویسٹرن ورلڈ (یو ایس اے) کا ہوتا ہے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق دنیا جو اس وقت دو بلاکس میں بٹی ہوئی تھی، اور کسی تیسرے بلاک کے حق میں خصوصاً مسلم اتحاد کیلئے ہر گز موافق نہ تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ بھٹو، شاہ فیصل، یاسر عرفات، قذافی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا یا پھر مسلم رہنمائوں و ممالک تاراج کر کے مطیع و فرمانبردار بنا لیا گیا۔ واضح رہے کہ دوسری اسلامی کانفرنس، 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے تناظر میں ہی مسلم اُمہ کے اتحاد کیلئے ہوئی تھی اور او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس تنظیم کا جو کردار رہا اس کا اجمال ہر فرد اور ہر مسلمان پر عیاں ہے، یہی نہیں امریکہ بہادر کے واحد عالمی پاور بننے کے بعد مسلم خصوصاً عرب و خلیجی ممالک امریکہ کی گود میں جا گرے اور فیوض و سرپرستی سے فیضیاب ہوتے رہے۔
متذکرہ بالا حقائق کے سبب سرزمین فلسطین کے دو ریاستوں میں منقسم ہونے کا اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود ایشو بحیرہ احمر میں نہ صرف غرق ہو گیا بلکہ امریکہ کی سرپرستی و اعانت سے اسرائیل کے مظالم اور قتل و غارت گری اور مسلم ممالک کے خاتمے کا سللہ بڑھتا چلا گیا۔ تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اکتوبر 23ء سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں پر جو قیامت برپا ہے اس کی تاریخ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی مگر خطے کے ممالک جنہیں امریکہ کی عنایات اور تحفظات کی ضمانت حاصل تھی خاموش تماشائی بن کر محض زبانی کلامی مذمت و تشویش تک ہی محدود رہے۔ گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے ابراہام کارڈ کے امریکی و اسرائیلی منصوبے میں بہت سے عرب و خلیجی ممالک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے حتیٰ کہ تسلیم کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کیا۔ ان میں سے بیشتر وہ تھے جنہیں امریکی توسط سے اپنے تحفظ پر یقین تھا۔
اسرائیل کی بدمعاشی اور سینہ زوری امریکہ و مغربی ممالک کی سپورٹ پر بڑھتی گئی اور غزہ پر تباہی و بربادی کیساتھ ایران پر محاذ آرائی کی بلکہ امریکی بمبار بی 2 کے ذریعے ایران کے نیوکلیائی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور عجیب بات تھی کہ یہ کارروائی قطر میں امریکہ کے سب سے بڑے اڈے سے کی گئی کہ قطری فرمانروائوں کو یقین تھا کہ ان کی حفاظت امریکہ کریگا۔ مثل مشہور ہے کہ دوسروں کے گھر میں لگی آگ کو دیکھ کر تماشہ دیکھا جاتا ہے لیکن اپنے گھر میں آگ لگے تو ہوش اُڑ جاتے ہیں، قطر میں اسرائیل کے حملے پر ہم گزشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور ہمارے علاوہ متعدد سفارتکار، مبصر و تجزیہ کار بھی اس حملے کے بعد ہونیوالے او آئی سی کے اجلاس کو نشتند، گفتند، برخواستند و فضول قرار دے چکے تھے تاہم سعودی عرب و پاکستان کے درمیان ہونیوالے دفاعی و اسٹریٹجک معاہدے ”ایک ملک پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائیگا” کے ہیش ٹیگ نے اسرائیل اور اس کے حواریوں بالخصوص بھارت کیلئے الارم کا کام کیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق پاکستان و سعودی عرب حربی و اقتصادی اور دیگر امور کا بھرپور اشتراک کرینگے، اس حوالے سے قارئین مختلف پروگراموں کے توسط سے معاہدے کی تفاصیل اور اثرات سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ ہمارا مؤقف ہے کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان، چین اور ترکی کیساتھ سعودی اشتراک سے عالمی منظر نامہ میں بہت نمایاں تبدیلیاں متوقع ہیں، صدر ٹرمپ کا بگرام کے اڈے کو واپس لینا بے معنی نہیں، بدلتی ہوئی صورتحال میں وہ اس بیس سے خصوصاً چین اور نئے اتحاد کو کنٹرول کرنے کے موڈ میں ہیں۔علاوہ ازیں ایک جانب مشرق وسطیٰ، خلیجی ممالک کا امریکی حفاظتی یقین دہانیوں سے اعتبار متزلزل ہوا ہے اور دفاعی معاہدے میں ان کی شمولیت متوقع ہے تو دوسری جانب فلسطین کی آزاد حیثیت تسلیم کئے جانے کی امید کی جا سکتی ہے، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس تسلیم کر چکے ہیں۔ یہی نہیں سعودی عرب کے طفیل بھارت کے اقتصادی امور کو بھی دھچکا لگنے کے بھی امکانات ہیں۔ سب سے بڑھ کر مئی میں بھارت کو ہزیمت سے دوچار کر کے پاکستان نے حربی و سفارتی محاذوں پر جو عزت کمائی ہے، حرمین شریفین کے محافظ بن کر وقعت میں مزید اضافہ ہوگا، انشاء اللہ 1974ء کا نغمہ ہر مسلم کے لبوں پر ہوگا،
ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں
٭٭٭













