پنجاب اور پختونخواہ میں ایک ہی وقت اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تھیں لیکن سارا زور پنجاب میں انتخابات کرانے پر دیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ساتھیوں کا اصرار پنجاب میں فوری الیکشنز کرانے پر آخر کیوں ہیں۔ جبکہ پختونخواہ میں انتخابات کا کوئی ذکر بھی نہیں ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی کی صوبوں کے درمیان تقسیم کو جانا جائے جو مندرجہ ذیل ہے۔ قومی اسمبلی کی کل336نشستیں ہیں جو بھی انہیں سے کم ازکم 169 نشستوں پر منتخب اراکین کا اعتماد حاصل کر پائے گا۔ اسی جماعت کو حکومت تشکیل دینے کا حق حاصل ہوگا جیسا کہ قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ کل نشستوں کی نصف سے بھی زیادہ نستیں پنجاب میں ہے۔ اسلئے جو بھی پنجاب میں ایک بڑی تعداد حاصل کر پائے گا وہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی۔ اب سب کو سمجھ آگیا ہوگا کہ ایک طویل عرصہ پنجاب میں برسراقتدار بڑے ڈاکو(بقول عمران خان) کے کیوں تحریک انصاف کا مرکزی قیادت سونپی گئی ہے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ پرویزالٰہی انہیں اپنے پنجاب میں اثروسروخ کی بنیاد اور انکے سیکرٹری اور چھوٹے ڈاکو خان محمد بھٹی کے عدلیہ میں قریبی و ذاتی تعلقات کی بنیاد پر انکے لئے نہایت کارآمد ثابت ہونگے اور اس سے پہلے کہ وہ(خان صاحب) نااہل قرار دے دیئے جائیں کم ازکم پنجاب میں انکی حکومت بذریعہ بڑے اور چھوٹے ڈاکو کی بجائے اس طرح انکے وزیراعظم بننے کی راہ کافی قدر ہموار ہوجائیگی۔حالانکہ یہ تو ایک دیوانے کا خواب لگتا ہے سب سے پہلے تو یہ ہے کہ گجرات کے چودھریوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے کئی دہائیوں سے انکے پاس گجرات کی چار سیٹوں کے علاوہ کوئی بڑی تعداد یا عددی اکثریت نہیں ہے وہ ہمیشہ اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سیاست کرتے رہے ہیں۔ ڈھیر دولت بھی بنائی ہے کوئی پکڑ نہیں ہوئی، پارٹیاں آتی جاتی ہیں،جماعتیں ٹوٹتی بکھرتی رہی ہیں ،ہمیشہ حکومت میں کسی طریقے سے رہنے آئے۔PTIمیں بھی انکو جنرل باجوہ نے یہی بھیجا تھا جس کا اعتراف پرویزالٰہی خود کر چکے ہیں آج بھی اگر موصوف تحریک انصاف میں بیٹھے ہیں تو آقائوں کے آشیرباد سے ہی بیٹھے ہیں۔ سرکاری اتنا مال کھانے کے بعد سرکار سے بغاوت کا چودھری صاحب سوچ بھی نہیں سکتے ورنہ انہیں معلوم ہے کہ میانوالی جیل گئے تو ایک ہفتہ میں سے زیادہ وہ زندہ نہیں بچیں گے۔ جہاں تک دوسرے صوبوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا سوال ہے تو خان صاحب سے کہا کہ پختونخواہ والے بھی زیادہ رغبت رکھتے ہیں کیونکہ پچھلے دور میں حکومتی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں تھی۔ تحریک انصاف کی پچھلی حکومت میں پختونخواہ میں ان سے پہلے آنے والی تمام حکومتوں کے بدعنوانی اور نااہلی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ آنے والے انتخابات تحریک انصاف کے لئے جیتنا آسان نہیں ہوگا۔ سندھ اور بلوچستان والے بھی زمان پارک کے خان کی طرف سے زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ خان کی محسن کشی نے بھی کئی لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ ادھر آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی نااہلی نے صرف عمران خان کے ایک بڑے مالی اعانت کرنے والےATMکو بند کر دیا ہے۔بلکہ کافی ممکناATMکو کھلنے سے پہلے بند ہونے پرراغب کیا ہے۔ جو احتجاجی تحاریک میں کمی آئی ہے وہ بھی انہیں دھچکوں کا پیش خیمہ ہے۔ جس قسم کی مہنگی سیاست کے عادی عمران خان ہوچکے ہیں۔ وہ اب ممکن نہیں رہی ہے۔ اگر عمران خان کی حکمرانی طریقہ کار اور اس کے نتائج کا موازنہ شہبازشریف کے انداز حکمرانی سے کریں تو گلیمر تو شہبازشریف میں نہیں لیکن جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اس طرح شہبازشریف ایک عملی سیاست کرنے والے اور دھیمی بات کرنے والے انسان ہیں۔ اس مشکل حالات میں اگر دیکھا جائے تو امریکہ کے ٹرمپ جو سابق صدر ہیں اور عمران خان کا اسٹائل ایک ہے۔ اور جوبائیڈن جنکی بڑی عمر اور کمزور جسمانی ساخت کو دیکھ کر انکو بھی طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن نتائج انکے کام کے بھی ٹرمپ سے کافی بہتر ہیں۔ ہم پاکستان کی صورتحال میں شہبازشریف کی مماثلت، جوبائیڈن سے کرسکتے ہیں۔ کسی حد تک آخر میں ذکر ضروری ہے پاکستان کی مالی ابتری اور گرتی ہوئی معاشی صورتحال کی جسے چودھری فواد جیسے تحریک انصاف کے بچے جمہورے مکمل طور پر پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت پر ڈالتے سنائی دیتے ہیں۔ وہ یا تو عالمی معاشی تنزلی سے نابلد ہیں یا اس کے متعلق بات کرنا تو دور کی بات ہے سننا بھی نہیں چاہتے۔ لیکن حقیقت بلکل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کرہ ارض نے پچھلے دو ڈھائی برس سے آفتیں جھلیں ہیں جسکا آغاز کووڈ۔19کے وائرس سے ہوا تھا ہے پہلا جھٹکا تھا عالمی معیشت کو ابھی اس سے سنبھلے نہیں تھے کہ روس کے یوکرین پر حملہ اور امریکہ اور مغربی طاقتوں کی یورپ کے دفاع کے غرض سے یوکرین کی بھرپور مالی امداد دیتا رہے کہ یوکرین دنیا پہلے چند بڑے گندم پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ چین نے پہلے تو مخفی طور پر روس کی مدد کی لیکن امریکہ کے تائیوان سے بڑھتے روماس نے چین کو برہم کیا اور اب وہ کھلا کر روس کی حمایت کر رہا ہے۔تیسری بڑی آفت قدرتی آفات کا اکٹھے کرہ ارض پر نزول کی صورت میں آیا۔ جب سیلاب، زلزلے، سمندری اور زمینی طوفان اور پھر جنگلات میں آتشزدگی نے رہی سہی کثر پوری کردی۔ عالمی معاشی ترقی میں6فیصد سے2022میں گر کر3.2تین عشاریہ2پر آگیا، مہنگائی کے طوفان نے امریکا جیسے طاقتور اب تک کے نتائج اور ماہرین معیشت کے اندازے کے مطابق علمی ترقی کی شرح 27.2 فیصد تک چلی گئی ہے۔ اگلے سال تک عالمی معاشی تنزلی میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ پاکستان میں تو ویسے ہی حالات خراب تھے اب تقسیم در تقسیم سے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں لیکن ان خیالات کیلئے فقط شہباز حکومت کوقصور وار ٹہرا دیا۔
٭٭٭٭