دسمبر کا مہینہ پاکستان کے لئے کوئی اچھا مہینہ ثابت نہیں ہوا۔ 16دسمبر1971کو پاکستان اس منحوس دن دولخت ہوا۔ لیکن اس کے پیچھے کئی برسوں کی کئی غلطیاں تھیں یہ کوئی ایک دن یا ایک برس میں سب کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان بننے کے فوری بعد ہی اقتدار سیاسی رہنمائوں کے ماتھ سے نکلتا گیا لیکن ایک ایسا فیصلہ جس نے پاکستان کی سیاسی حلقوں میں حیرت اور بے حسی کو جنم دیا وہ قائداعظم کی بیماری کے بعد زیارت جیسی سنسان جگہ بھیجنے کا فیصلہ تھا یاد رہے کہ زیارت میں نہ کوئی ہسپتال تھا نہ ہی کوئی بہتر راستہ تھا کہ انہیں ایمرجنسی کی صورت میں کسی اچھے ہسپتال کے ایمرجنسی روم تک رسائی تھی۔ قائد کی کل منانع ایک ذاتی معالج اور ایک نرس ہی تھی۔ آخر یہ فیصلہ قائداعظم بانی پاکستان کے بہتر علاج کیلئے کیا گیا تھا یا انہیں امور مملکت سے دور نظر بند کرکے ہر آنے جانے والے ملاقاتی کو روکنے کیلئے کیا گیا تھا تاکہ انہیں اقتدار کے ایوانوں کی خبر گیری سے محروم رکھا جائے اور لیاقت علی خان کو کسی مستند اور قابل بھروسہ رہنمائی سے محروم رکھا گیا۔ برطانوی راج کی باقیات یعنی سول اور ملٹری نوکر شاہی کے سازشی عناصر کو اہم محدوں پر فائز کرکے حکومت کے فیصلے کرنے کی صلاحیت کو جان بوجھ کر دھندھلا دیا گیا۔ کیا کسی تاریخ دان یا صحافی تجزبہ نگار نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا قائداعظم رضا کارانہ طور پر زیارت جانے پر راضی ہوئے تھے یا انہیں ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الاہی بخش کے ذریعے ایک سازش کے ذریعے زیارت جانے پر راضی کیا گیا تھا؟ جوکہ آگے چل کر ایک نظر بندی میں تبدیل ہو کر رہگئی؟؟ اور پھر جب انہیں ہسپتال منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئی تو ایسی ایمبولینس کا انتخاب کیا گیا جو انہیں منزل تک پہنچانے کے بجائے اللہ کی طرف بھیجنے کا انتظام کردے۔ کتنی افسوسناک بات ہے کہ بانی پاکستان کو ایئرپورٹ سے لانے کیلئے ایک خراب ایمبولینس نہ کوئی بیک اپ نہ کوئی قافلہ اور جب ایمبولینس خراب ہوئی تو کئی گھنٹے کراچی کی نمی اور گرمی میں سڑک پر کھڑی رہی اور کوئی متبادل انتظام اس وقت تک نہ ہونے دیا گیا جب تک یہ تسلی کرلی نہیں گئی کہ ہمارے قائد اب جانبر نہ ہو پائینگے!!! انااللہ واناالیہ راجعون۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ساری بدانتظامی کی ذمہ داری ان کے قریبی ساتھی اور ہمراہ دوست نواب لیاقت علی خان کے اوپر ڈال دی گئی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ قائداعظم جن کی ذہنی حالت نہایت خراب تھی وہ امور مملکت میں دخل انداز ہوں!!! ظلم کی انتہا دیکھئے ایک قائد کو سہوا مارا گیا اور انکے قتل کا الزام انہی کے پرانے رفیق کار اور بازو پر ڈالنے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔ اس واقعہ کے چند ہی سالوں کے اندر قائد ملت کو بھی لیاقت باغ (جسکا پہلا نام شاید کمپنی باغ تھا) ایک افغان پیشہ ور قاتل سید اکبر کی گولی سے شہید کروا کر اس سید اکبر کو موقعہ پر ہلاک کروا دیا گیا آج تک اس سید اکبر کو خاندانہ کو ماموار خرچہ دیکر راولپنڈی میں پالا گیا ہے سب ڈرامہ کس نے کیا پھر شہید ملت کے قتل تحقیقات کرنے والے افسر کو ہم سارے تحقیقاتی نتائج اور ثبوتوں کے ایک ہوائی حادثہ میں پشاور کوئٹہ روٹ پر تباہ کردیا گیا۔ طاقتور قوتیں جب کوئی قتل کرواتی ہیں تو پھر پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتیں لیکن خون اور مشک(خون بقا کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے۔ شہید ملت کے بعد سیاسی اور جمہوری قوتیں کمزور پڑتی گئیں اور جنرل ایوب کی گرفت مضبوط ہوتی گئی پہلے تو انہوں نے اپنے پیٹی بھائی ریٹائرڈ میجر جرنل اسکندر مرزا کے معرفت ایمرجنسی ملک پر نافذ کی پھر ایمرجنسی کے سارے اختیارات مکمل طور پر اسکندر مرزا سے اپنے نام کروا کر پھر آخر میں بیوفائی کا خنجر اپنے دوست کی پیٹھ میں گھونپ کر اسے48گھنٹے میں ملک سے روانہ کردیا ایک احسان فراموش کی مستند روایت ڈال دی۔ جب جنرل ایوب پوری طرح اقتدار پر قابض ہوگئے تو پرانے مسلم لیگی سیاستدان بشمول پرانے فارمولے رفقا پر ایبڈو کی پابندی لگا کر مکمل ون میں شو کا آغاز کردیا جس نے پھر بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا کیا۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کی وجہ سے تمام فیصلے راولپنڈی میں جب ہونے لگے تو بنگالیوں نے اکثریت پر اقلیتی بازو کے فیصلوں سے بغاوت کردی۔ کافی خونریزی اور افراتفری کے بعد آخر کار جرنل نیازی نے ہندوستانی جنرل اروڑہ کے سامنے نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کے کمانڈر کی حیثیت سے ہتھیار ڈال دیئے اور بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ کردیا گیا ہمارا ایک بازو کاٹ دیا گیا اور مغربی پاکستان کے کچھ نادران حلقوں نے سکھ کا سانس لیا نادان کہنے لگے اچھا ہوا ویسے بھی مشرقی پاکستان چھ مہینے تو سیلاب زدہ ہوتا ہے ہمیں ہی انکو پالنا پڑتا تھا۔خسکم جہاں پاک جبکہ حقیقت اسکے برعکس تھی مشرقی پاکستان چائے اور جپسم کا ایک بڑا برآمداتی ذریعہ تھا جس کے زرمبادلہ سے اسلام آباد جسے اعلیٰ شہر کی خوبصورت عمارتیں کھڑی کی گئیں تھیں۔ آج ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے اور ہم دن بدن پستیوں میں دھنسے جارہے ہیں۔ شیخ مجیب ایک محب وطن پاکستانی تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آزادی کے بعد اسے قتل کر دیا جائیگا اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مجیب نے خبردار کیا تھا قتل تمہیں بھی کردیا جائیگا لیکن مجھے یہ خوشی ہی کہ میرے خون کے بدلے میرا ملک آزادی کی نعمت پائیگا۔ اور تمہارے قتل کے بعد تمہارا پاکستان ناکامیوں کا مسکن بن جائیگا۔ جس طرح مجیب کا پورا کنبہ ماسوائ(حسینہ واجد موجودہ وزیراعظم بنگلہ دیش کے) قتل کروا دیا گیا اور بھٹو کا پورا کنبہ ماسوائے صنعم بھٹو جس نے اپنے پورے کنبہ کو باری باری کٹ کہے گرئے دیکھا وہ نہ صرف ملک چھوڑا بلکہ محدود کیا کہ وہ سیاست میں نہیں آئین گئی۔ دسمبر اسلئے بھی منحوس ہے کہ27دسمبر 2007کو اسلامی دنیا کہ دو مرتبہ وزیراعظم منتخب خانوں کو لیاقت آباد میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شہید کروا دیا گیا۔ اسی جگہ پر جہان پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان شہید ہوئے پھر بینظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر وار دیا گیا تین وزیراعظم کا قتل ایک ہی شہر ایک ہی علائقہ سوال تو بہت اٹھتے ہیں پہلے اور تیسری وزیراعظم کے قتل کے اصل ملزم ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں۔ آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان تین قتل کی سزا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس لئے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ دسمبر پاکستان کیلئے اچھی خبر نہیں رکھتا؟
٭٭٭٭٭