یہ خاتون حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن تھیں، حضرت ضررار رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بہادر مجاہد اسلام تھے ۔ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپتے ان کی راہ میں آنے سے کتراتے تھے، جنگ ہوتی تو سارے دشمن اور فوجی جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے لیکن حضرت ضررار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے، لمبے بال لہراتے، چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور ان کے آگے لاشیں ۔اتنی تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمنوں کی صف میں نکل جاتے تھے ۔ جنگ اجنادین جاری تھی حضرت ضررار رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسب معمول میدان میں اترے اور اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صف چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمنوں نے انہیں اپنے درمیان دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا مسلمانوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضررار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کر لیا گیا ہے خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آزاد کروانے کے لیے روانہ ہوئے دوران معرکہ انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے اس نے اتنی زور دار اور غضب ناک حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے لیکن ان سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے ہیں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس کی جانب بڑھے جنگ جاری تھی ، کبھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سوار کو دشمن کے نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالد بن ولید کی مدد کرتا، حضرت خالد بن ولید اس کے پاس گئے اور پوچھا تم کون ہو جواب دینے کے بجائے سوار نے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر ٹوٹ پڑا ۔ بات کرنے کا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالد بن ولید نے پوچھا سوار تو کون ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے وہ رخ بدل کر دشمن پر ٹوٹ پڑا، تیسری بار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر کون ہے تو ؟نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ ضررار کی بہن خولہ بنت ازور ہوں اور جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی واپس نہیں جائوں گی ۔ حضرت خالد بن ولید نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو نے ؟ کہنے لگی آپ منع کر دیتے اس لئے پھر خالد رضی اللہ نے کہا آنے کی کیا ضرورت تھی ہم نے ضررار کو آزاد کروانے کے لیے حملہ کیا ہے انھوں جواب دیا جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتی ہیں پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مل کر حضرت ضررار کو آزاد کروا کر دم لیا۔خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی شخصیت بھی کچھ کم کمال نہیں تھی لیکن ضرار بن ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن ہونے کی وجہ سے بھی مزید شہرت ملی ہے ان بہن بھائی نے بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں ہیں کہ آج پاکستان آرمی کے مایہ ناز ٹینک کو ان کا نام دیا گیا ہے ۔ پاک آرمی کی عورتوں کی سب سے بڑی یونٹ خولہ بنت ازور کے نام پر ہے اور سعودی عرب کیسرکاری خواتین کی ٹریننگ کے سرکاری کالج کا نام بھی خولہ بنت ازور ہے ۔ ان کا ذکر ملک شام کی فتوحات میں نمایاں طور پر ملتا ہے حضرت ضررار رضی اللہ تعالیٰ عنہ والے واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد شام کے عیسائیوں نے اپنے ایک کمانڈر کے حکم پر اس کے بھاء کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے لشکر پر حملہ کرکے کچھ مسلمان خواتین کو گرفتار کرلیا جن میں حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھیں ۔خواتین عرب کو گرفتار کرکے جب ایک دریا پر پہنچا اپنے بھائی کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے وہاں ٹھہر گیا وہاں اس نے اپنے سامنے ان عورتوں کو بلا کر کھڑا کیا حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے زیادہ خوب نظر آئی اس لیے اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ میری ہے اور میں اس کے بارے میں کچھ نہ سنو کوئی اس کی طرف نظر نہ کرے لوگوں نے اس کے اس حکم کو منظور کرلیا پھر اسی طرح ہر ایک فوجی ایک ایک عورت کی طرف اپنے ناپاک ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہنے لگا کہ یہ عورت میرے لئے ہے ۔اس کے بعد اس مال کو جو لوٹ کر لا ئے تھے جمع کیا اور
اپنے سپہ سالار کا انتظار کرنے لگے گرفتار شدہ عورتوں میں سے اکثر قوم عمیر سے تعلق رکھتی تھی جو گھوڑے کی سواری اور قبائل عرب سے مقابلہ کرنے کی عادی تھیں عزت اور غیرت مند خواتین آپس میں جمع ہوئی اور حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا عمیر کی بیٹیوں کیا تم اس بات پر رضامند ہو کہ رومی کافر اور بے دین تم پر غالب آجائیں تم ان کی لونڈیاں باندیاں بن کر ر ہو اگر نہیں تو کیا ہوئی تمہاری وہ غیرت جس کا چرچا عرب کی گلیوں میں اور جس کا ذکرشام کی مجلسوں میں ہوا کرتا تھا افسوس میں تمہیں غیرت و حمیت سے خالی دیکھ رہی ہوں اور میرے نزدیک آنے والی مصیبت سے تمہارا قتل ہو جانا بہتر ہے اور رومیوں کی خدمت کرنے سے مر جانا افضل ہے یہ سن کر تمام نے کہا اے خولہ بنت آزورتم نے ہماری شجاعت ،عقل و دانائی ،بزرگی اور مرتبہ کے متعلق جو کچھ بیان کیا وہ واقعی سچ ہے یہ بھی صحیح ہے کہ ہمیں گھوڑے کی سواری کی عادت ہے مگر یہ تو بتلائیے کہ جو شخص نہ گھوڑا رکھتا ہونہ اس کے پاس کوئی ہتھیار ہو نہ تلوار ایسا شخص بھلا کیا کرسکتا ہے آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں دشمن نے اچانک گرفتار کرلیا ہمارے پاس اس وقت کوئی سامان نہیں ہے اس لئے بکریوں کی طرح ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے ہیں یہ سن کر حضرت خولہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اے بہادر بیٹیوں خیموں کی لکڑیاں اور ستون موجود ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم انہیں اٹھا کر ان پر حملہ آور ہوں ممکن ہے کہ اللہ ہماری مدد کریاور ہم غالب آجائیں ورنہ کم از کم شہید ہی ہو جائیں تاکہ یہ کلنگ کا ٹیکا تو ہماری پریشانیوں پر نہ لگنے پائے ۔ سب نے کہا کہ ہمارے نزدیک بھی یہ آپ کی رائے بہت زیادہ صحیح ہے اس کے بعد ہر ایک عورت نے خیمہ کی ایک ایک لکڑی اور ستونوں سے کھوڑے اٹھائیں حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالی عنہ خود بھی تیار ہو کر ایک بڑی سی لکڑی اور کھوڑا لے کر دروازے پر آ گئیں اور ان کے پیچھے باقی دیگر عورتیں بھی حضرت خولہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی نسوانی فوج کو مخاطب کیا اور اس طرح تنظیم اور قواعدکی کہ زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے ملی رہنا اگر خدانخواستہ تم الگ ہوگی تو یاد رکھنا کہ تمہارے سینوں کو نیزے اور تمہارے سروں کوتلواریں کاٹ ڈالیں گی اور اگر زندہ بچ گئیں تو لونڈیاں بن کر رہ جاں گی یہ کہہ کر اپنے قدم بڑھایا اور نگران سپاہی کے سر پر اس زور سے ڈنڈا مارا کہ وہ زمین پر گر پڑا اور مر گیا دوسرا چھت پر گیا اور بتایا ،سب نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کیا کہ کیا ہوا سپہ سالار کا بھاء بھی بھاگتا ہوا آگیا پوچھنے لگا کہ کیا ہوا تم لوگ یہ کیا کررہی ہو حضرت خولہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا آج ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ ان لکڑیوں کے ذریعے تمہارے دماغوں کو درست اور تمہاری عمر کو ختم کرکے اپنے اسلاف کے قدموں میں ڈال دیں جسے سن کر اور اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ ہم بہت کم ہیں تمہیں چاہیے کہ تم انہیں جدا جدا کر کے زندہ پکڑو لیکن تم میں سے جو شخص خولہ کو پکڑے اسے چاہیے کہ کسی برے کام کا خیال تک نہ لائے کیونکہ وہ میری ہے اس کا یہ حکم سنتے ہیں رومیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر کر نرغے میں لے لیا وہ چاہتے تھے کہ ان تک پہنچیں مگر جیسے ہی کوئی شخص ان کے قریب آتا تھا یہ پہلے لکڑیوں سے اس کی پٹاء کرتیں پھر خیمے کے کھوڑے سے مار مار کر اس کا سر توڑ دیتی تھی اس لیے ان تک کوئی نہ پہنچ سکا ان بہادر خواتین نے اسی طرح دسیوں سوار کو موت کے گھاٹ اتار دیا یہ دیکھ کر وہ گھوڑے سے نیچے اترا اور اس کے ساتھ ہی اس کے ہمراہی بھی نیزے اور تلواریں لے کر خواتین اسلام کی طرف بڑھے خواتین آپس میں ایک دوسرے کی طرف لپکی اور آپس میں کہنے لگی تسلط کی زندگی سے مر جانا بہتر ہے اس کے بعد اس نے عورتوں سے بھر پور مقابلے کئیمگر ان کی بہادری اورپر شجاعت خواتین کے سامنے کف افسوس ملنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکا حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اس نے دیکھا جو بڑی چابکدستی سے ادھر ادھر دوڑ رہی تھی آپ کے قریب آ کر کہنے لگا عربیہ اپنے ان کاموں سے باز آجا ! کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ میں تمہارا مالک بن جاں ؟ میں وہ شخص جس کی تمنا میں تمام عیسائی عورتیں رہتی ہیں میں بہت ساری زمین، باغ ،عہدہ ، اور بہت زیادہ مویشیوں کا مالک ہوں اور بادشاہ ہرقل کے نزدیک میری قدر ومنزلت اور صاحب عزت ہے اور یہ سب کچھ تمھارے لیے ہی ہے تمہیں چاہیے کہ ہتھیار ڈالو ، اپنی جان کو اپنے ہاتھ سے نہ گوا حضرت خولہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب میں فرمایا کہ بدبخت ! خدا کی قسم اگر میرا بس چلے تو میں ابھی تیرا بھیجا باہر نکال دوں ! میں تو اپنی بکریاں بھی تجھ سے نہ چڑواں کہ لوگ تجھے میرے چڑواہے کی نسبت سے محترم سمجھیں۔ یہ سن کر غصے میں اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ اس سے زیادہ اور کیا شرم کی بات ہو گی کہ ان کے لوگ آجائیں اور انھیں چھڑا لے جائیں بادشاہ کے خوف سے ڈرو اور ان کو قتل کر دو ۔ یہ سن کر رومی جوش میں آ گئے اور سب نے مل کر خواتین پر یک لخت حملہ کردیا خواتین شدید حملے کو صبرواستقامت سے برداشت کر رہی تھی کہ اسی دوران انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے لشکر کو دیکھا جو گردوغبار اڑاتا ہوا اب ان کے قریب پہنچ چکا تھا مجاہدین کی تلوار کی چمک خواتین کو نظر آرہی تھی لیکن مجاہدین وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کے حیران رہ گئے کہ اسلام کی بہادر بیٹیاں خیموں کی لکڑیوں سے رومیوں کے سروں کو کچل کر ان کو جہنم واصل کر رہی ہیں جب انھوں نے دیکھا کہ مجاہدین اسلام ان کے تعاقب میں آ پہنچے ہیں تو حضرت ضررار رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مل کر ایک بھرپور حملہ کیا جس کی وہ تاب نہ لا سکا اور واصل جہنم ہوا، مرخین نے لکھا ہے کہ اس جنگ میں مسلمان خواتین نے کم از کم تیس کافروں کو خیموں کی لکڑیوں سے موت کے گھاٹ اتار کر واصل جہنم کیا اور بہادری کی اس داستان کی وجہ سے حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو بھی ایسا عزم و ہمت عطا فرمائے اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے ہیں آمین ثم آمین!
٭٭٭