قارئین وطن! ڈسمبر آج بھی تازہ دم لگتا ہے اس وقت جرنل یحییٰ کا بھیانک راج تھا ،میں وہ شام کبھی نہیں بھولتا جب گورنر ہائوس کے گیٹ پر لوگوں کو ٹکریں مارتا اور ڈھاریں مار کر روتا دیکھ رہا تھا ،رونے والوں میں میں بھی شامل تھا قائدآعظم کا ملک دو لخت ہوگیا، پاکستان بنانے والوں نے اپنے صوبہ کا نام بنگلہ دیش رکھ لیا، اس بات کو کئی سال ہو گئے ہیں یہ چوائیس ہم نے ان کو دی مغربی پاکستان میں بیٹھے جرنلوں اور وڈیرہ شاہی جن کو یہ خوف تھا کہ بنگالی پاور میں آگئے تو ہماری جاگیریں کھس جائیں گی اور اسی خوف نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا آج پھر دسمبر اپنی گھنائونی سازشوں کے ساتھ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے، اللہ خیر کرے-
قارئین وطن! میں اور شیخ شہیب صاحب اسلام آباد میں پاکستان سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ عارف چوہدری کے ظہرانہ جو انہوں نے Gun and Country Club میں میرے لئے اور میرے دوستوں کے لئے رکھا، کھانے کے دوران کسی ٹی وی اینکر نے ان کو فون کرکے خبر دی کہ سپریم کورٹ کے قاضی فائز عیسیٰ اور ساتھیوں نے ہماری فوجی سرکار کو فوجی عدالتیں لگانے کی اجازت دے دی ہے یہ خبر نہ صرف چوہدری صاحب پر بجلی بن کر گری بلکہ تمام شرکا پر اور ایسا لگا کہ ایک بار پھر ڈسمبر ہو گیا ہے اُس وقت کی فوج جتناایک شخص مجیب الرحمان سے خوف زدہ تھی اور آج عمران خان نیازی سے خوف زدہ ہے،کل بھی قوم رو رہی تھی آج بھی قوم رو رہی ہے اس وقت بھی عدالتیں اندھی تھیں آج بھی عدالتیں اندھی ہیں مٹھی بھر طبقہ اشرافیہ اپنے آپ کو پاکستان سمجھتی ہے جو فوج کو بھی اور جج صاحبان کو بھی چلا رہی ہے ،کل جج صاحبان ٹیکس پئیر کا لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ خرچ کر کے پہلے کیس بناتی ہے پھر کروڑوں روپے خرچ کرکے ان کو بریت دیتی ہے پاکستان کے جوڈیشل سسٹم میں جج ہمیشہ سفارشی لگتا تھا حکمران وقت کا چہیتا بہت کم جج صاحبان ایسے ہیں کہ میرٹ کی بنیاد پر لگے ہیں لیکن سفارشی جج جب جج بن جاتا تھا اپنے عہدہ اور کرسی کا پاس رکھتا تھا حالانکہ جسٹس قیوم کا باپ اور جسٹس نثار کا باب کچھ ویلیوز رکھتے تھے لیکن قیوم ، نثار اور ان کے دور کے بیشتر جج صاحبان کرپٹ اور نا اہل ثابت ہوئے ہیں جرنل ایوب کے دور سے لے کر تمغہ جمہوریت لینے والے جج صاحبان خاص طور سے اس ٹولہ کے جرنل ضیا الحق نے اور بعد میں نواز شریف نے سپریم کورٹ سے لے کر سب سے چھوٹی کورٹس کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ،ججوں کا تقسیم ہونا ایک نارمل ایکٹ ہے لیکن آئین کی تشریح پر تو اپنی رائے مختلف رکھ سکتے ہیں لیکن عوام کی فلا و بہبود کا تو پاس رکھ سکتے ہیں لیکن یہاں تو جج صاحبان پارٹی بنے بیٹھے ہیں مجھے یاد ہے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نواز شریف کے آگے پیچھے پھرتا تھا کہ میاں صاحب آپ کی حکومت بحال کردی ہے اب ہمارا بھی خیال رکھیں میں نے ایک دن مجید نظامی صاحب سے پوچھا کہ نظامی صاحب نسیم حسن شاہ یہ کیا کہتا پھر تا ہے کہ اب ہمارا بھی خیال کرو انہوں نے بتایا کہ وہ صدرِ مملکت بننا چاہتا ہے پھر کہتے کہ میں نے اس کو چیف جسٹس بنوا دیا ہے اور اس کو کیا چاہیے یہ وہ دور تھا جب تارڑ کو صدر مملکت بنایا گیا تھا اس کے بعد قارئین خود اندازہ لگا لیں کہ ہماری عدلیہ کا معیار کتنا پست ہو گیا ہے ۔
قارئین وطن! جس انداز میں عدلیہ اپنا نظام چلا رہی ہے ہم اہل وطن کے لئے ہر روز ڈسمبر ہے میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان بنایا میں نے اپنے باپ کی آنکھوں میں اس کی ماں کے مرنے پر ایک آنسوں نہیں دیکھا لیکن جس دن اس کا ملک دو ٹکڑے ہوا خدا کی قسم میں نے اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھے اور اس کے بیٹے کو آج پاکستان آنے کے لئے ویزا لینا پڑتا ہے اس عدلیہ اور ہماری سپاہ نے ملک کا ماحول اتنا مکدر بنا دیا ہے خوف آتا ہے ایک زمانہ تھا کہ وکیل کے دفتر سے کسی کو گرفتار نہیں کرسکتے لیکن اب تو عدالتوں کے اند پولیٹیکل ورکر کو ہتکڑیاں بھی لگتی ہیں اور بالوں سے نوچا جاتا ہے ملک کے سب سے مقبول لیڈر کا کیا حال کیا ہوا ہے ہم تو سمجھتے تھے کہ انتظامیہ سے عدل بڑا ہوتا ہے کہ عدل بے انصافیوں کے خلاف آخری آواز ہے لیکن یہاں عدلیہ ایک کیس میں ضمانت لیتی ہے یا بری کرتی ہے پولیس دوسرا مقدمہ بنائے کھڑی ہوتی ہے افسوس کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ وہ دن نہیں رہے تو یہ بھی نہیں رہیں گے آ ہاتھ اٹھائیں کہ ہم جنہیں رسم ِ دعا یاد نہیں اللہ کے حضور گڑ گڑا کر پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے دعا کریں کہ وطن بہت نازک دور سے گزر رہا ہے کہ یہ ڈسمبر خیر سے گزر جائے۔ آمین !
٭٭٭