ذوالفقار علی بھٹو سے ڈاکٹر قدیر تک!!!

0
149
پیر مکرم الحق

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ(اسی لفظ کو سمجھنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے)یہ لفظ ایسا ہوتا جارہا ہے جیسے اسلام میں حرام جانور جس کا نام لینے کی ممانعت ہے۔بہرحال وہی مافیا سے جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس پر قبضہ کیا جوکہ ناجائز قبضہ تھا پھر اسی گروہ نے قائداعظم کی ایمبولینس کو گورنر جنرل ہائوس کراچی نہیں پہنچنے دیا اور اسی گروہ نے پھر راولپنڈی میں لیاقت علی خاں کو شہید کروا دیا۔یہی گروہ ذمہ دار تھا محترمہ فاطمہ جناح کی پراسرار موت کا اور پھر اسی گروہ نے پاکستان میں جمہوریت کا قتل عام کیا۔مشرقی پاکستان میں بنگالیوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے اور انہیں غدار قرار دیکر الگ ہونے پر مجبور کیا اور اسی مافیا نے پھر اسلامی ممالک کی تنظیم کے چیئرمین، پہلے متفقہ آئین کے روح رواں اور پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین منتخب وزیراعظم اور ایٹمی قوت کو پاکستان میں متعارف کروانے والے اور ڈاکٹر قدیر خان کو ہالینڈ سے لانے والے قائد عوام کو رات کی تاریکی میں راولپنڈی جیل میں تحت دار پر سجانے والے مجرموںنے ظلم، بربریت، وطن فروشی اور منافقت کی انتہا کردی جس شخص کو اپنی آنکھوں پر بٹھانا تھا اسے ایٹمی راز افشاں ہی نہیں انہیں بیچنے کا الزام لگا کر اسے کئی دن ایوان صدر کے ایک کونے میں محبوس کیا اور اسے ذہنی ایزا رسانی کا شکار بنا کر اس سے ناکردہ جرم کا اعتراف تحریر کروا کر عبرت کا نشان بنا دیا۔قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر خان جس نے بھٹو کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا تھا اسے زندہ تو رہنے دیا گیا لیکن اسکی زندگی کو موت سے بدتر کر دیا گیا۔تصور کیجئے کہ چند گھنٹوں میں قوم کے مقبول ترین ہیرو جس کے نام پر جس کی قربت پر لوگ رشک کرتے تھے ،اسے ملک کا ایک ناپسندیدہ ولن بنا دیا گیا کہ اس عظیم سائنسدان نے ایٹمی راز شمالی کوریا اور ایران کو ایک بھاری رقم کے ذریعے بیچے تھے ،اخبارات کے ذریعے انکا(ڈاکٹر قدیر کا)اعترافی بیان بھی شائع کروا دیا جس میں انہوں نے اقبال جرم کیا تھا۔کتنے شرم کی بات تھی قوم کے لئے ایک ڈوب مرنے کی بات تھی اور صحافت کا بھی ایک شرمناک سیاہ باب تھا۔جنرل نے جنرل مشرف اور اس کی میڈیا یٹم کے کہنے پر ڈاکٹر قدیر کو جس بیجا میں رکھ کر دبائو کے ذریعے لئے جانے والے من گھڑت بیان کو مشتہر کرکے ایک قومی ہیرو کو زیرو بنانے کی اس ناکام کوشش کا حصہ بنے۔زندہ قومیں ایسی کسی کوشش کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جاتی ہیں۔ٹائینامن اسکوائر پر ٹینکروں کے سامنے نہتے لوگ آکر کھڑے ہوگئے یہی زندہ قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔اس بدنام زمانہ مافیا نے ہماری قومی حمیت کو اکھاڑ کر پھینک دیا ہے ڈرا دھمکا کر قوم کے ضمیر کو گھری نیند سلا دیا ہے۔جس ملک میں اس کا مقبول تین منتخب وزیراعظم کو رات کی تاریکی میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر اسکی لاش کو وارثوں کے حوالے کرنے کے بجائے عزیزوں کو آخری دیدار کروائے چپ چاپ دفن کر دیا جائے اور غدار وطن جنرل یحییٰ کو جس نے ملک کو دولخت کیا اسے اکیس توپوں کی سلامی دیکر ایک ہیرو کی طرح دفن کیا گیا اس ملک کے لوگ بے بس نہیں تو کیا ہیں؟ایک بار پھر وہی تاریخ دہرائی گئی آئین کے آرٹیکل6کو تاراج کرنے والے مجرم جنرل مشرف کو تو گارڈ آف آنر دیکر روانہ کیا گیا لیکن ملک کو ایٹمی قوت دینے والے قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر کی میت کو کاندھا دینے والوں میں نہ وزیراعظم نہ ہی قوم کا کوئی برسراقتدار اہم شخصیت آپائے کیونکہ انکو اپنے آقائو کی برہمی کا خدشہ تھا۔تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے اپنے محسنوں کی قدر نہیں کی انکے نصیب میں محرومیوں اور بربادیوں کی ایک لمبی فہرست میں آتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم کے بہت بڑے ہیرو تھے جنہیں ہم نے گنوا دیا ہے ،اب ہم بھیڑیوں کے حوالے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here