الحمدللہ میلاد النبیۖمنانے کی دلیلیں بے شمار ہیں۔ان گنت ہیں اور سچی ہیں صرف مشکوک لوگوں کو سمجھ نہیں آتیں۔اگر یہ لوگ بھی شک کی زندگی سے نکل آئیں۔تو ایمان کی لذت سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔میلاد النبی پر خرچ کرنے سے بھی ہم مالا مال ہیں۔جلسے جلوس میں بھی ہم خود کفیل ہیں۔نعرہ ہائے تکبیر ورسالتۖ میں بھی ہم کنجوسی نہیں کرتے تو پھر ہم کمزور کہاں ہیں۔عمل میں کمزور ہیں۔جلسہ ساری رات کا سنیں گے مگر نماز کی پابندی نہیں کرتے ،الاماشاء اللہ جس کا میلاد ہم مناتے ہیں۔اس کا اپنا حال تو یہ تھا کہ خدائے بزرگ وبرتر کو کہنا پڑا محبوب نماز کیلئے ضرور کھڑا ہوا کر مگر کچھ آرام بھی کرلے۔آپ کے پائوں سوج جاتے ہیں جسم کا بھی تھوڑا سا حق ادا کر۔اس تناظر میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔کیا نماز پنج گانہ پڑھتے ہیں تہجد تو نصیب کی بات ہے۔پنج وقتہ نماز ہی ادا کرلیں تو بڑی بات ہے۔سچ بول اور وعدہ پورا کر۔اعلان نبوت کے بعد تو آپ کی زندگی ہی اور تھی اعلان نبوت سے پہلے بھی آپ صادق الوعد تھے۔حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء ایک دن صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے۔میلاد سے سیرت کی طرف اپنے اپنے ایمان لانے کے واقعات بیان کر رہے تھے۔ایک سے ایک عجیب تھا اور یہ سارے واقعات سرکار دو عالم کی سیرت کے متعلق تھے۔حضرت عبداللہ ابن ابی الحمساء کی باری آئی تو فرمانے لگے میں تو اعلان نبوت سے پہلے ہی ایمان لا چکا تھا۔سارے صحابہ یک زبان ہوگئے۔وہ کیسے فرمایا وہ ایسے کہ میں نے سرکار دو عالم سے کچھ اشیاء کا لین دین کیا۔میرے پاس کچھ مال کم تھا۔میں نے کہا یا محمدۖ آپ میرا یہاں انتظار کرسکتے ہیں۔میں یوں گیا اور یوں آیا حضرت ابی الحمساء فرماتے ہیں کہ میں گھر میں جاکر بھول گیا۔ایسا مصروف ہوا کہ تین دن کے بعد یاد آیا اور میں تو محمدۖ کو ایک جگہ بٹھا کر سامان لیکر آنے کا کہا تھا ،بھاگم بھاگ پہنچا شرمساری سے میرا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔حیرت کی بات ہے سرکار دو عالم کو وہیں بیٹھے ہوئے پایا، سرکار کے چہرے پر ناراضگی یا غصہ کے آثار ناپید تھے۔مجھے دیکھ کر صرف اتنا کہا اے جوان تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا۔میں تین دن سے تیرا انتظار کر رہا ہوں(ابودائود)کیا میلاد النبیۖ کا یہ تقاضا نہیں کہ اگر ہم محبت کرتے ہیں۔تو ان کی طرز زندگی کو بھی اپنائیں۔اسوہ حسنہ رول ماڈل بنائیں اور چند دھوکہ باز واعظین کی لایعنی باتوں پر عمل کی بجائے سرکار دو عالم کی زندگی کو رہنما بنائیں۔وعدہ تو بچے سے کریںتو اس کو بھی پورا کریں نہ کہ پوری اُمت سے غلط بیانی کی جائے۔ہمارا سفر میلاد النبیۖ سے سیرت النبیۖ کی طرف ہونا چاہئے۔
٭٭٭