سقوطِ ڈھاکہ سے کچھ نہ سیکھا!!!

0
128
شمیم سیّد
شمیم سیّد

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے دولخت ہونے کا غم بھلایا نہیں جاسکتا۔ اب جبکہ بنگلہ دیش کو قائم ہوئے50 برس ہوچکے لیکن بنگلہ دیش کی حکومت تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اکابرین کو پھانسیاں دیتی جارہی ہے۔ جن پر50 برس بعد الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے 1971 میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ حالانکہ ان کا قصور صرف پاکستان سے محبت تھا۔ بہرحال ہر سال 16 دسمبر کا دن ہمیں مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش سے بچھڑنے کی وجوہات اور نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بابائے قوم محمد علی جناح کی پرجوش قیادت کے نتیجے میں کی گئی جمہوری اصولوں پر مبنی کوششوں کی وجہ سے وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو اس وقت پہلی دفعہ شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب قائداعظم ایک سال بعد ہی اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ اگر وہ مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے اور ملک کی قیادت کرتے تو پاکستان کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔
یہ سانحہ پاکستان کی ملکی تاریخ کے درد ناک ترین حادثات میں سے ایک ہے۔ نہ صرف ملک دولخت ہوا ایک لاکھ فوجی اور شہری جنگی قیدی بنے۔ ہتھیار ڈالنے کی تقریب ڈھاکہ میں اس طرح منعقد ہوئی کہ پاکستان اور اس کی فوج کو دنیا بھر کے سامنے ہر طرح کی ذلت اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
سقوط ڈھاکہ برصغیر کی تاریخ کاایک المناک باب ہے کہ بھارت کی کھلم کھلا،عملی مداخلت سے پاکستان دولخت ہوا۔ افسوس پاکستان کے حکمران ڈھاکہ کے سانحے کو بڑی آسانی سے فراموش کردیتے ہیں۔ بیسویں صدی میں سقوط ڈھاکہ کا ذلت آمیز منظر مسلمانوں پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ شاید کسی رات کے اندھیرے اس قدر ہولناک ہوں گے جس قدر ہولناک اندھیروں سے ہمیں ان چند لمحات کے دوران گزرنا پڑا، جب آل انڈیا ریڈیو یہ اعلان کررہا تھا کہ وطن عزیز کی افواج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ پر اندراگاندھی نے جھومتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ چکا دیا گیا ہے۔مزیدیہ کہ دو قومی نظریے کو خلیج بنگال کے پانیوں میں غرق کردیا ہے۔
اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے قریبی ساتھی لیاقت علی خان کا پرسرار قتل پاکستان کیلئے مزید مشکلات کا سبب بنا۔ جس سے ملکی سیاست میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ آزادی کے وقت پاکستان کے دو حصے تھے اور ان دونوں حصوں کو بھارت کا ایک ہزار میل پر مشتمل وسیع علاقہ تقسیم کرتا تھا۔ دونوں حصوں کی سیاسی سرگرمیاں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ انگریز حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بھی مشرقی پاکستان کے لوگوں نے مغربی پاکستان کی عوام سے زیادہ جدوجہد کی جبکہ مغربی پاکستان کے لوگ سیاسی بصیرت سے محروم تھے کیونکہ یہاں کی سیاست پر جاگیردار طبقہ چھایا ہوا تھا۔ملکی حالات اس وقت مزید خراب ہونا شروع ہوئے جب دونوں بازوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے کیلئے اردو زبان کو پورے ملک کی مشترکہ زبان قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے سے ملک کے اتحاد اور سالمیت پر الٹے اثرات پڑے۔ بنگالیوں نے اس فیصلے کو اپنی زبان اور ثقافت کو دبانے کی ایک سازش تصور کرتے ہوئے مشرقی بازو میں حکومت کیخلاف مظاہرے شروع کردئیے اور ایک مظاہرے میں تین طالب علموں کی ہلاکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مظاہروں میں شدت بڑھ گئی۔ ایک اور اہم وجہ جس نے مشرقی پاکستان میں بے اعتمادی کی فضا میں اضافہ کیا۔ وہ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی تھی جنہوں نے لیاقت علی خان کے بعد وزیراعظم کاعہدہ سنبھالا تھا اور ان کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔ 1954 کے صوبائی انتخابات میں مشرقی پاکستان کی عوام کا متفقہ فیصلہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والے مرکزی حکومت کے ناروا سلوک سے خوش نہیں ہیں۔ وہاں ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ کو ایک بہت بڑے مارجن سے شکست کا سامناکرنا پڑا۔ افسوس کہ مرکزی حکومت کے بیورو کریٹس سیاسی پہلوں کے پیمانوں، فیصلوں اور رویوں کو سمجھنے کیلئے دور اندیشی اور عقلمندی سے کام نہ لے سکے۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا دور حکومت سے تمام مشرقی پاکستانیوں کو نکال دیا گیا جس کے باعث ان میں احساس محرومی بڑھ گیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ متحدہ پاکستان کیلئے ایک جھٹکا ثابت ہوئی۔ اس جنگ میں انتہائی کمزور منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ کیونکہ تمام تر فوج مغربی سرحدوں پر لگا دی گئی اور مشرقی پاکستان کو غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا۔ اس طرح شیخ مجیب الرحمن کو ایک آزاد بنگلہ دیش پر آواز اٹھانے کا بھرپور موقع مل گیا۔ اس نے ایک فارمولا پیش کیا جس کا مقصد صرف اور صرف علیحدہ ملک کا قیام تھا۔ جنرل ایوب خان نے اپنا اقتدار غیر آئینی طورپر جنرل یحیی کو منتقل کردیا۔ جنرل یحیی نے مغربی پاکستان میں ون یونٹ ختم کرکے چاروں صوبوں کو بحال کردیا اور اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم کا تعین صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر کردیا جس کے باعث مشرقی پاکستان نے اس وقت واضح اکثریت حاصل کرلی۔ 1970 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی بازو میں 167 سیٹیں حاصل کیں جبکہ مغربی بازو میں ایک سیٹ بھی نہ حاصل کرسکی۔ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ، صوبہ پنجاب میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ ظاہرا انتخابات نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا چونکہ ملک میں کوئی ایسی قومی جماعت نہ تھی جو دونوں بازوں کی نمائندگی کرتی۔ انتخابات کے بعد صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی اور آخر کار 16دسمبر 1971 کے دن پاکستان کو ایسے المناک سانحے سے دوچار ہونا پڑا جس کو یاد کرکے آج بھی محب وطن پاکستانیوں کے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ٹکڑے ہونے کا غم کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here