محترم قارئین! تقرب الٰہی کے مختلف ذرائع اپنی اپنی جگہ پر مستند و معتبر ہیں لیکن تقرب الٰہی کا آسان ترین راستہ کسی کے فیض نظر سے ملتا ہے۔ آئینے میں دیکھا، میرا عکس تھا۔ ہو بہو مجھ جیسا میں اس میں محو ہوگیا۔ اس کی حرکات وسکنات میرے جیسی تھیں میں آگے بڑھتا گیا۔ وہ آگے بڑھتا گیا میں پیچھے ہٹا، وہ پیچھے ہٹ گیا۔ میں چھپ گیا، وہ چھپ گیا میں سوچتا کہ اصل ”میں” کون ہے۔ آئینے کے اندر یا باہر ایک اصل ہے۔ دوسرا عکس ہے اور اصل عکس کا عکس ہے۔ یہ سوچ بڑی اذیت ناک تھی۔ میں اس سے ہم کلام ہوا۔ وہ خاموش تھا مجھے عجیب محسوس ہوا عکس اصل سے مختلف معلوم ہوا۔ وہ ہمیشہ خاموش رہا اور میں ہمیشہ بوتا رہا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ”تم بولتے کیوں نہیں”؟ وہ مسکرایا اور چپ رہا کمرے میں سناٹا تھا۔ میں نے پھر سوال کیا، ”تم بولتے کیوں نہیں”؟ اس نے کہا کہ میں بولوں گا تو تم برداشت نہ کرسکو گے۔ بس اتنا سن کر ہیبت طاری ہوگئی۔ کپکپی طاری ہوگئی اور پھر معلوم نہیں کیا ہوا۔ نہ معلوم آئینے میں سما گیا وہ آئینے سے باہر نکل آیا، بہرحال برداشت سے باہر تھا جو ہوا سو ہوا۔ اس دن سے آئینہ ٹوٹ گیا آئینے کی ضرورت بھی نہیں تھی وہ اور میں ساتھ ساتھ تھے۔ اس دن سے مجھے ہر شے بدلی بدلی نظر آنے لگی۔ مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوبنے والا سورج یوں معلوم ہوا کہ یہ نہ کہیں سے نکلتا ہے۔ نہ ڈوبتا ہے ہر مقام بیک وقت مشرق بھی ہے۔ اور مغرب بھی اور ان مشارق و مغارب سے ماوراء ایک کائنات ہے، جہاں نہ دن ہے نہ رات، نہ ہونا ۔ اس دن سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ایک طویل ماضی کی انتہا ہوں اور ایک طویل مستقبل کی ابتدا بھی میں ہی ہوں۔ میرے کندھوں پر ماضی اور مستقبل کا بوجھ ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ہر انسان کا حصہ ہوں۔ اور ہر انسان میرا حصہ ہے۔ میں ہر وجود میں موجود ہوں اور ہر وجود مجھ میں موجود ہے۔ دنیا میں ہونے والے ہر جرم کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ اور نیکی کا بھرم میرے ہی دم سے ہے۔ میری سوچ بھی عجیب ہوگئی۔ میں کبھی رات کو آفتاب دیکھتا ہوں اور کبھی دن کو تارے نظر آتے ہیں۔ خوابوں میں جاگتا ہوں اور بیداری میں خواب دیکھتا ہوں۔ میں خود ہی آخری سوال ہوں اور خود ہی اس کا آخری جواب ہوں۔ میرے لئے ہر حاصل محرومی ہے۔ اور ہر محرومی حاصل ہے۔ اب میں جانتا ہوں کہ خوشی غم دینے کیلئے آتی ہے۔ اور غم خوشی کا پیش خیمہ ہے میں اس بڑھیا کے بارے میں بہت سوچتا ہوں جس نے ساری عمر سوت کاتا۔ اور آخر کو اسے الجھا دیا۔ میں ان محنتوں پر روتا ہوں جو رائیگاں کر دی گئیں۔ میں اس عابد کے بارے میں بھی متفکر ہوں، جس کو عبادت کے زخم نے محرومیاں عطا کیں۔ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ لیکن مغرور عالم کی عاقبت پر مجھے افسوس ہے میں ان کی حماقت پر حیران ہوں جن کے پر پر کتابوں کا گٹھا ہے۔ اور ان کے دماغ اور دل خالی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ پہاڑوں کے دامن میں مٹی کیسے آئی؟ اور یہ کہ دریاروں کیوں ہیں؟ سمندر ساکن کیوں ہے؟ آنکھ بنانے والے کتنا بصیر ہوگا اور کان بنانے والا کس طرح کی سماعت رکھتا ہوگا۔ میں تحیر میں ہوں کہ درخت کا کوئی پتا کسی پتے سے نہیں ملتا ہاتھی کو بنانے والا چیونٹی کو کس طرح تخلیق کرتا ہے۔ میں اپنے دوسرے ”میں” سے نجات چاہتا ہوں۔ لیکن اس کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ وہ مجھ عجیب داستانیں سناتا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ کائنات ایک راز ہے۔ گہرا راز رنگ آواز پیدا کرتے ہیں اور آواز کا رنگ ہوتا ہے۔ عجیب کشمکش کا عالم ہے۔ سوچتا ہوں تو خیالات تھک جاتے ہیں انسان دنیا میں کیوں آتا ہے۔ اور اگر آیا ہے تو جاتا کیوں ہے۔ بس یہ سب اللہ تعالیٰ کے راز ہیں جنہیں حقیقت والاہی سمجھتا ہے۔
بہرحال میں خواب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ یہ زندگی ایک خواب گرا ہے۔ ہم سب نیند کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں جب آنکھ بند ہوگی تو آنکھ کھلے گی۔ میں بہت کم خواب دیکھتا ہوں وہ مجھے سونے ہی نہیں دیتا۔ میں عجیب تکلیف میں ہوں۔ اس کا شاید علاج ہو ہی نہیں سکتا۔ میں فکر کی وادیوں میں سرگرداں ہوں۔ مجھے اس عمل کی تلاش ہے جو مجھے میرے فکر سے نجات دلائے۔ لیکن یہ سوچ کر اب میرا فکر ہی میرا عمل ہے۔ میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ اپنی تلاش کرنا ترک کر دیتا ہوں۔ مجھے مستقبل پر اعتماد ہے۔ مجھے اس کی رحمت پر یقین ہے میرے عمل کی کوتاہی مجھے اس کے فضل سے محروم نہیں کرسکتی۔ اس کی عطا میری خطا سے بہت وسیع ہے۔ میرے ملک کی عزت اس کے نام کے معزز ہونے سے وابستہ ہے۔ اس لئے مجھے مایوسی نہیں ہوسکتی۔ ملک عطا کرنے والا اس کی بقا کا انتظام فرمائے گا۔ مجھے ہر انسان دکھی نظر آتا ہے۔ اور ہر انسان دکھ کا باعث بھی اور دکھ کا مداویٰ بھی ۔ ہر بیماری اپنے قریب ہی اپنا علاج رکھتی ہے۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے اس ساتھی سے نجات حاصل کرنی چاہیے جس نے میری سوچ کو پراگندا کردیا ہے۔ مجھے دوسروں سے مختلف خیال کا کیا حق ہے لوگ جو کر رہے ہیں ٹھیک ہی ہوگا خدا کرے ایسا ہی ہو۔ میں تو اپنے بارے میں ہی سوچتا ہوں۔ مجھے بھی غافل ہونے کا حق ہے یہ حق مجھے ملنا چاہئے۔
میں چاہتا ہوں کہ آئینے والے ”فین” کو واپس بھیج دوں گا۔ لیکن کیسا طریقہ اپنایا جائے گا۔ آئینہ تو ٹوٹ چکا ہے۔بس حقیقت بات یہ ہے کہ تقرب الٰہی کے مختلف ذرائع اپنی اپنی جگہ مستند ومعتبر ہیں لیکن تقرب الٰہی کا آسان ترین راستہ کسی کے فیض نظر سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے