قارئین وطن !اپنی سرمین پر میرا آخری کالم مہینے اپنے لوگوں میں گزار کر ایک بوجھل دل کے ساتھ واپس نیو یارک جا رہا ہوں دوستوں کا ہجوم چھوڑ کر جا نا بڑا مشکل کام ہے اور وہاں پر فیملی کے علاوہ دوستوں کا ہجوم منتظر ہے یہاں اور وہاں کا فرق صرف اتنا ہے کہ تحریر اور تقریر کی آزادی ہے اور سیاسی اسٹیج پر سخت سے سخت بات کرنے پر آپ کو برہنہ نہیں کیا جاتا اور یہاں اتنی سیاسی آلودگی ہو گئی ہے کل کتوں کا ایک غول میری طرف لپکا اور بھونکنے لگا چونکہ پانچ مہینے سے بھونکنے کی آواز کانوں کو اتنی مانوس سی ہونے لگی تھی کہ میں لرز کر رہ گیا جب انہوں نے مجھے مخاطب ہو کر کہا بھاگ نصراللہ بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا جرنل ضیاالحق کی وحشتوں کا زمانہ تھا کہ کتے کو مارنا مشکل تھا اور آدمی کو مارنا بڑا آسان تھا اور اس کی پشت پناہی میں چلنے والے نام نہاد سیاسی گرو نے مختلف انداز میں بولنے اور لکھنے والوں کو بہمانہ قتل کرنا شروع کردیا تو ایک کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا کہ بھائی بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا بس اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے اس مٹی کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوں کہ سچی بات ہے کہ عمر کہ حصہ میں برہنہ نہیں ہوا جاتا لہٰذا میری ناتواں ہڈیوں میں بھری کمزوری کو معاف کر دیں اور میری طرف سے خدا حافظ قبول کر لیں ۔
قارئین وطن ! مہینے پہلے امپورٹڈ حکومت کی جس طرح بساط بچھائی گئی اور اس وقت کے میر سپاہ جرنل قمر جاوید باجوہ اپنے ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نے جو گندا کھیل کھیلا اس سے ہماری براس کو جو نقصان پہنچا ہے اور پہنچ رہا ہے اس ادارے میں بیٹھے ہوئے لوگ اندازہ نہیں کر پا رہے کہ اس گند کو کیسے سمیٹا جائے اور افواج کی حرمت کیسے بحال کی جائے جس کہ سر پر 24 کروڑ عوام کی سلامتی کی ذمہ داری ہے ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کے روپ میں مسلط کردہ مافیا جرنل صاحب یا جرنیل صاحبوں نے ہی کیا ہے اور اب یہ حال ہو چکا ہے ہماری مملکت کی بساط پر قومی اداروں میں مافیا کہ مہرے انڈکٹ ہیں اور انہوں نے اپنے اقتدار کے شوق میں تمام سیاسی اقداریں پامال کر دی ہیں ۔ہیومن رائٹس کی کوئی اہمیت نہیں ان کی نظر میں کہ ایک شخص عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن سے ایسے بھاگ رہیں ہیں جیسے بندر نائی کے استرے سے اور افسوس اس بات کا ہے کہ جس ادارے کی سب سرحدی اور نظریاتی سلامتی کی ذمہ داری ہے اور ملک کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچانے کی ہے وہی عوام کی چیخ و پکار سننے سے قاصر ہے ۔ یہ قوم کی بے حسی ہے یا اداروں کے سربراہوں کی کہ کسی کو ملک ڈوبتا نظر نہیں آ رہا اللہ خیر کرے ۔
قارئین وطن ! ایک ہفتہ سے آپ لوگ دیکھ ہی رہے ہیں کہ مخصوص ٹولہ کس طرح عمران خان پر ٹوٹاہوا ہے نہ گھر نہ چار دیواری کی پروا کی گئی صرف خوف خوف اس بلے باز سے نواز شریف کی بیٹی اور خود نواز شریف سیاسی طور پر دیوالیہ ہو گیا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج اگر صاف اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں تو ایک بھی ووٹ ان کے لئے نہیں ہے ۔ نیرنگئے سیاستِ دوراں تو دیکھئے!
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا بھی حال یہی کچھ ہے اللہ نے ہمہ اس کے سر پر بٹھا دی ہے لیکن منصب کے طور طریقوں سے نا بلد رکھا ہوا ہے اس کی ذمہ داری صرف انتخاب کروانے کی ہے لیکن وہ زرداری اور شہباز کا ذاتی ملازم کا رول پلے کر رہا ہے اِس کو تاریخ کی کوئی سوجھ بوجھ نہیں کہ محترم مقافاتِ عمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور ہر اقدام کا جواب دینا پڑتا ہے پتا نہیں کہ محسن نقوی کس زعم میں یہ سب کچھ کر رہا ہے ،مسٹر نقوی کو بابا بلے شاہ کے ایک شعر میں سمجھانے کی کوشش ہے کہ شاید اس کو سمجھ آجائے!
جدوں اپنی اپنی پے گئی
دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی
کہ جب نظام بدلے گا کوئی کسی کو نہیں بچائے گا سب کو اپنی اپنی فکر لگ جائے گی لہٰذا ہوش کے ناخن سب کو لینے کی ضرورت ہے ،شہباز اور اس کے پی ڈی ایم جھتہ کو بتا دو ہزار بند باندھنے سے بھی الیکشن نہیں روکا جائے گا اور نہ ہی عمران کی کامیابی اس کی بنیادی وجہ کہ قوم کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور وہ جان گئے ہیں کہ کرپٹ چور اور خائین ہم پر مسلط ہیں جن کو بار بار اسٹیبلشمنٹ آزما چکی ہے وہ کیسیان پر اعتبار کریں ۔ دوسری طرف نواز کی بیٹی مریم صفدر اور بلاول زرداری جس لہجے میں سیاسی گفتگو کر رہے ہیں ہر لیول پر ان کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے جو جو الزام وہ عمران خان پر کستے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے اپنے باپوں کو آئینہ بنا کر ان کرتوتوں کا ذکر کرتے ہیں جو چوریاں اور کرپشن ان کی ذاتوں سے منسلک ہیں ۔ عزیزانِ سیاست میرے ایک دوست پروفیسر آفاق خیالی صاحب ہیوسٹن امریکہ میں ایک وی لاگ پروگرام کرتے ہیں میں ان کی صحافتی تجربہ پر حیران ہوں کہ عمران کی ایک ہزار ایک برائیاں گنواتے نہیں تھکتے ان کو ان کا لاہوری ہجوم طالبان اور دہشت گردوں کا ہجوم نظر آتا کبھی پٹھانوں کا جلوس کہیں گے میرے پروفیسر بھائی اگر آپ کو سہیل وڑائچ نے شادبان مارکیٹ اور اوریگا مارکیٹ دکھائی ہوگی جہاں قصہ خوانی بازار سے زیادہ پھٹان آباد ہیں جو بہت بڑے کاروباری حضرات ہیں جہاں کروڑوں کی دوکان داری ہوتی ہے اور وہ سب پاکستانی ہیں پروفیسر صاحب کبھی کبھی شہباز شریف اور سلمان شریف کے ارب کی چوری کا بھی ذکر کر دیا کریں تاکہ آپ کو بیلینس وی لاگرسمجھا جائے ۔ پروفیسر صاحب آج فائق صدیقی صاحب کا وی لاگ ہر گھر میں سنا جاتا ہے میں جس جس گھر میں گیا ان کے وی لاگ کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ جوان بڑی بے باک خبریں اور تبصرے کرتا ہے اور ایسٹ اور ویسٹ کے درمیان ایک برج کا کام کر رہا ہے اللہ صدیقی صاحب کو اور ترقی و شادمانی عطا کرے اور پاکستان کو بھارتی نظر سے دکھا نے والو کو ہدایت دے کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ۔ اے اللہ صاحبان اقتدار کو آوازِ سگاں سننے اور سمجھنے کی قوت عطا کر کہ اس سے پہلے کہ ہر نصراللہ بھاگ جائے۔
٭٭٭