اور کراچی کا اسٹیڈیم خالی پڑا تھا!!!

0
610
حیدر علی
حیدر علی

ٹھیک ہے اگر شائقینِ کرکٹ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین ہونے والے میچ کو دیکھنے نہیں آرہے تھے تو پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب حل و عقد کو کوئی دورس اقدام اٹھانے کی ضرورت تھی تاکہ تماشائی دوبارہ اسٹیڈیم میں واپس آجائیں اُنہیں ایسا کوئی کرتب دکھانے کی ضرورت تھی جیسا کہ جانوروں کے مالک بھینس اور گائے کو باڑ میں لانے کیلئے کرتے ہیں، جانوروں کو چارہ دکھاتے ہوئے پہلے خود باڑمیں جاتے ، اور اُنکا پیچھا کرتے ہوئے جانور بھی باڑکے اندر گھس جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ پی سی بی کے حکام کو یہ اعلان کرنا چاہئے تھا کہ جو بھی کراچی کے سٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھنے آئیگا اُس کا داخلہ مفت ہوگا، صرف یہی نہیں بلکہ پہلے آنے والے 500 تماشائیوں کو ایک ہزار روپے کا نقد انعام بھی دیا جائیگا، تمام تماشائیوں کو مفت لنچ بکس بھی دئیے جائینگے، کھیل کے اختتام پر لاٹری بھی نکلے گی اور تین جیتنے والوں کو ٹویوٹا گاڑی کے انعامات سے بھی نوازا جائیگا۔لیکن ایسی کوئی بات دیکھنے میں نہ آئی. صرف سابق کپتان وسیم اکرم اور شاہد خان آفریدی تماشائیوں کی عدم دلچسپی پر اظہار افسوس کرتے رہے، اُنکا موقف یہ تھا کہ ایسے میچ جیتنے کا فائدہ ہی کیا جبکہ شائقین ہی غائب ہوں،معلوم ہوا ہے کہ شاہد خان آفریدی سبزی منڈی جاکر لوگوں کو اسٹیڈیم جانے کیلئے اصرار کرتے رہے، اُنہوں نے جب ایک بڑے میاں کو کہا کہ چلئے چلئے سٹیڈیم چلئے، وہاں جاکر پاکستان کی مایہ ناز کرکٹ کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیجئے لیکن بڑے میاں نے جواب دیا کہ وہ تو سبزی خریدنے آئے ہیں اگر اُن کی بیگم کو پتا چل گیا کہ وہ میچ دیکھنے چلے گئے ہیں تو وہ اُن کی دھلائی کر دے گی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیڈیم آخر کیوں خالی پڑا رہ گیا، بنگلہ دیش میں بھی یہی حال تھا ، مشکل سے وہاں کے سٹیڈیم میں دو سو تماشائی موجود تھے، روزنامہ جنگ کے رپورٹر کے مطابق تماشائیوں کے نہ ہونے کی وجہ گراؤنڈ میں سہولتوں کا فقدان اور آن لائن ٹکٹ خریدنے میں دشواریاں تھیں ،پتا نہیں لوگ کون سی سہولت کی بات کر رہے ہیں،سٹیڈیم میں باتھ روم تو ہوتا ہی ہے، کراچی کے سٹیڈیم میں صرف 32 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور ٹکٹ تو کھیل شروع ہونے سے قبل بھی سٹیڈیم میں دستیاب ہوتا ہے، ٹکٹ کی قیمت بھی مناسب ہے یعنی کہ 250 سے 2000 روپے تک ہے۔
اِس کے مقابلے میں برصغیر ہندوپاک کا سب سے بڑا نریندر مودی اسٹیڈیم احمد آباد گجرات میں واقع ہے ، جس میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشا بیں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، کراچی کے سٹیڈیم میں ہو کا یہ عالم تھا کہ ایک فیملی جو لاہور سے میچ دیکھنے آئی تھی رات وہیں گزارنے میں عافیت جانا جب سیکورٹی گارڈز اُن کی باز پرسی کرنے آئے تو اُنہوں نے کہا کہ وہ لاہوری ہیں اور رہنے کیلئے کراچی میں نہ کوئی گھر ہے اور نہ کوئی جاننے والا، اِسلئے وہ ایک ہفتے اسٹیڈیم میں ہی قیام کرینگے، سیکورٹی گارڈز والوں نے پولیس کو بلا لیا ، پولیس نے اُنہیں سٹیڈیم خالی کرنے کا حکم دیا تاہم لاہوری فیملی میں سے ایک نوجوان سامنے آیا اور کہا کہ وہ ایک وکیل ہے اور اپنے حقوق کو جانتا ہے، کوئی بھی اُنہیں زبردستی بے دخل نہیں کرسکتا ہے،بات پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تک پہنچ گئی اور سمجھوتہ یہ طے پایا کہ لاہوری فیملی کو ایک ہفتے تک سٹیڈیم میں قیام کرنے کی اجازت ہوگی۔
بہرنوع کراچی کے شائقین کی عدم دلچسپی کی وجہ ورلڈ کپ ہے جسے وہ دیکھ دیکھ کر تھک چکے تھے، اور فورا” اُس کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کا تین او ڈی آئی اور پانچ دِن کا دو ٹیسٹ میچ یکے بعد دیگر

اُن کے سر تھونپ دیا گیا تھا. تو پھر پی سی بی کی کیا توقعات تھیں؟ کیا وہ چاہتی تھی کہ لوگ کچھ اور کام کاج نہ کریں ، شادی بیاہ نہ کریں، شادی کیلئے کسی لڑکی کو نہ ڈھونڈیں ، اے آر وائی پر گِھسی پٹی محبت کا ڈرامہ نہ دیکھیںاور وہ صرف کرکٹ کا میچ دیکھتے رہیں اور ایسا میچ جس میں پاکستان کی ٹیم کی جیتنے کی اُمیدیں 80 فیصد تھیں اگر پی سی بی کے حکام اتنے زیادہ ہوشیار ہوتے تو پہلے ہی میچ میں پاکستان کو شکست دِلوادیتے اور پورے ملک میں سنسنی خیز فصا پیدا ہوجاتی، بھارت میں بھی مٹھائیاں تقسیم ہونے لگتیںلیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی سی بی کے ارباب حل وعقد کچھ زیادہ ہی خر دماغ ہیں،کراچی کے چوڑی دار پاجامہ پہننے والے سیاستدان ، پاکستان کے مرکزی وزیر اسد عمر اُن سے بارہا یہ اپیل کر رہے تھے کہ سٹیڈیم خالی ہونے سے بہتر ہے کہ اُسے مفت خور تماشا ئیوں سے بھر دیا جائے ، جس میں بعض وہ لوگ بھی شامل ہوں جو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اسٹیڈیم میں کوئی میچ دیکھنے آئے ہوں، وہ کرکٹ کے میچ کو اگر انجوائے کرینگے تو پھر دوبارہ ٹکٹ خرید کر دیکھنے آئینگے لیکن اُنہوں نے اُن کی ایک بھی نہ سنی۔
کرکٹ کے مقابلے میں سوکر کا مستقبل کچھ زیادہ ہی روشن نظر آتا ہے، انگلینڈ میں تقریبا” روزانہ ہی پریمیئر لیگ کا ایک یا دو نہیں بلکہ چار چار میچ ہوتا ہے اور ہر اسٹیڈیم میں 50 ہزار تماشا بین سے زائد شرکت کرتے ہیںلیکن بنگلہ دیش کے ڈھاکہ سٹیڈیم میں سوکر کے میچ میں کچھ ہجوم اُس وقت ہوتا ہے
جب کوئی مقامی ٹیم کھیل رہی ہوتی ہے لیکن ہو کا عالم اُس وقت طاری ہوجاتا ہے جب میچ کسی دو بیرونی ملکوں کے درمیان کھیلا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کا مشہور آغا خاں کپ کا ٹورنامنٹ معطل ہوگیا ہے،
لہٰذا کسی بھی میچ کے انعقاد سے قبل ارباب حل و عقد کو یہ سوچنا پڑے گا کہ کون سی وجوہات کی بنا پر مقامی آبادی کے لوگ میچ دیکھنے آئینگے، کیا وہ واقعی میچ کو انجوائے کرینگے یا اپنے وقت کی بربادی کا رونا روئینگے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here