پیارے قارئین کرام! سوشل میڈیا زندگی کے سفر میں بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔اس کا استعمال اس قدر عام کہ ہر کوئی اسکا دلدادہ بن چکا ہے۔بالخصوص نئی نسل تو اس زندگی کا جزو لازم سمجھنے لگی ہے۔دوسرے لفظوں میں سوشل میڈیا کے بغیر زندگی نا مکمل تصور ہو رہی ہے۔اس کو رحمت کہیں یا ذحمت ، اس کا انحصار اس کے استعمال پر ہے۔فیس بک،گوگل،وٹس ایپ،ٹوئیٹر،یوٹیوب وغیرہ کا شمار سوشل میڈیا میں ہے۔یہ پلیٹ فارم ایسا ہے جو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے مختلف ہے۔اس کے پلیٹ فارم سے کوئی بھی فرد اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔مضامین،کالم اور دیگر چیزیں نوک قلم سے سنوار کر عوام الناس تک پہنچا سکتا ہے اور مقبولیت و شہرت کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔اس کے ذریعے ہر فرد اپنے جذبات اور احساسات دوسروں کی نذر کر سکتا ہے۔واضح رہے اس پلیٹ فارم سے دنیا کے کسی بھی گوشے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے بہت تیزی سے علم ہو سکتا ہے۔اس کی بنا پر اگر گلوبل ویلج کا نام دنیا کو دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔چونکہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے اتنا ہی اس کے استعمال میں احتاط بھی لازم ہے۔اس کے منفی اور مثبت اثرات انسانی طرز زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔انسان فطری طور پر معلومات جلد سے جلد چاہتا ہے۔اس کے فوائد کا جائزہ لیں تو بے شمار ہیں۔تعلیم،صحت،قرآن،سیرت،معاشرت،تہذیب و تمدن،اقتصادیات،عبادات،عقائد، اور طرز زندگی کی اصلاح کے لیئے مواد اتنا میسر ہوتا ہے کہ انسان علم کی پیاس بجھا سکتا ہے اور زندگی میں کامیابی اور سرفرازی حاصل کر سکتا ہے۔گوگل کے ذریعے ہر قسم کے سوالات کے جوابات بھی حاصل کیئے جا سکتے ہیں۔تحریر و تقاریر اور دیگر پہلووں سے متعلق سوشل میڈیا بہت اہم بن چکا ہے۔اس ضمن میں اکثر یہ بحث ہوتی رہتی ہے کہ یہ پلیٹ فارم اتنا مقبول کیوں ہے؟اس کا سادہ سا جواب ہے کہ چونکہ معلومات تک رسائی اور پیغام رسانی کا ذریعہ ہے۔اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ معاشرہ اس کا استعمال کس طرح کرتا ہے۔پہلے بھی عرض کیا کہ تعلیمات سے ویران دلوں میں اجالا کیا جا سکتا ہے۔اس میں منفی چیزیں جو معاشرے کے مفاد میں نہیں وہ شیئر کرنے سے گریز کرنے کی بہت ضرورت ہے۔اگر فحش اور بے حیائی پر مبنی مواد پھیلایا جائے تو نوجوان نسل کے متاثر ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ منفی چیزیں جب پھیلائی جاتی ہیں تو معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔لڑائی جھگڑے ہونے سے معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی میں با مقصد تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔اس ضمن میں اتنی سی گذارش کی جاتی ہے کہ گیمز کھیلنے سے طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔اس کے منفی اثرات بھی اذہان پر مرتب اور نقش ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تعمیر سیرت کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا حالانکہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔اس لئیے بچوں کی نگرانی بھی کی جانی چاہیے۔تاکہ وہ منفی مواد تک رسائی حاصل نہ کر پائیں۔ہم نے بچوں کو قوم کی خدمات اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے۔محمد بن قاسم،سلطان محمود غزنوی اور مشاہیر اسلام کے کارناموں کی روشنی میں عظمت کا درس دینا ہے۔ایسے مواد کا انتخاب کرنا ہے جو تعمیری ہو۔اخلاقیات کا انسان کی طرز زندگی میں بھی ایک اہم کردار ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے سماج دشمن عناصر ایسا مواد پھیلاتے ہیں جو اخلاقیات کو متاثر کرتا ہے۔اس لیئے اچھا مواد تحریر و تقریر کے ذریعے شیئر کیا جائے جس میں ایک مقصد اصلاح کرنا مقصود بھی ہو۔مثبت پہلو سے دیکھا جائے تو اسلامی تعلیمات سے اس کے پلیٹ فارم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا ایسا ذریعہ ہے جس سے بے روزگار افراد ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔گمشدہ افراد مل سکتے ہیں۔ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔طلبہ معلومات کے خزائن تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔فیس بک،وٹس ایپ اور دیگر کے ذریعے رابطہ کاری بھی آسان ہے۔کاروبار کی تشہیر کا بہترین ذریعہ۔ایک قابل ذکر بات جو لمحہ فکریہ ہے 66 فیصد طلاقیں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی بدولت ہو رہی ہیں۔اسی پر اکتفا نہیں حسد،نفرت،بغض جیسی خرابیاں بھی اس کے منفی استعمال کی وجہ سے ہو رہیں ہیں جو ایک اسلامی اور مہذب قوم کے لیئے کسی بھی طور نیک شگون نہیں۔فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے۔تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔نئی پود تو اس قدر شخصی آزادی کا شکار ہو رہی ہے کہ حسن اخلاق اور ادب و احترام سے عاری محسوس ہوتی ہے۔اعتدال پسندی کی ضرورت ہے۔قابل ذکر بات کہ سوشل میڈیا ایک نعمت سے کم نہیں۔تاہم غلط استعمال ایک زحمت سے بھی کم نہیں۔ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔اس قدر دنیا کے مشاغل کی بھل بھلیوں میں کھو گیا جوان کہ اسے بھوک اور پیاس کا احساس نہیں۔جب ایسی کیفیت ہو تو اقبال کا شاہین متاثر ہوتا ہے حالانکہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاہین کا جہاں اور کرگس کا جہاں اور ۔ایک بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ خدارا سوشل میڈیا کی مثبت استعمال کریں۔ہمارا معاشرہ اس وقت ہنگامہ خیز دور سے گزر رہا ہے۔اساتذہ اور والدین بچوں کو مثبت رہنمائی اور اخلاقیات کا درس دیں تاکہ قوم کا سرمایہ ضائع نہ ہو۔تشدد،منشیات،لادینیت کے منفی راستوں سے قوم کے نوجوانوں کو بچایا جائے بلکہ صراط مستقیم کا درس دیا جائے۔میانہ روی اور اعتدال کا راستہ ہی کامیابی کی کنجی ہے۔طلبہ قوم کا سرمایہ اور جوان اس ملک کا اثاثہ ہیں ان کی بہتر تربیت سے کامل انسان کی تکمیل ہو سکتی ہے۔امید کی جا سکتی ہے کہ افراد معاشرہ بھی اس مقدس کام کے لیئے اپنا کردار ادا کریں گے۔فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی۔۔بندہ صحرائی یا مرد کوھستانی
٭٭٭