قارئین محترم! امید ہے کہ آپ بخیر ہونگے۔ دنیا سے ابھی ڈیلٹا کے اثرات ختم نہ ہو پائے تھے کہ کرونا کی نئی قسم اومی کرون نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، جنوبی افریقی ممالک سے اس ویرینٹ نے یورپ بشمول انگلینڈ کو بُری طرح متاثر کیا ہے بلکہ امریکہ میں بھی اس کے اثرات تیزی سے مرتب ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وائرس سے ایسے لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں جو ویکسینیشن کرا چکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہاں پاکستان میں کرونا متاثرین و اموات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے لیکن سیاسی کرونا کے اثرات تیزی سے اپنی شکل تبدیل کر رہے ہیں۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم سیاست کے عجیب ڈھنگ میں عالمی اور پاکستانی سیاسی منظر نامے کے حوالے سے جو گذارشات اور تجزیئے پیش کئے تھے، ہفتۂ رفتہ میں پاکستان میں دو اہم اور قابل ذکر واقعات ہماری عرضداشت کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں۔ پہلا اہم اقدام او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے افغانستان کے حوالے سے غیر معمولی اجلاس کا انعقاد تھا تو دوسرا خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کا ہونا رہا۔ پہلے واقعہ کا تعلق اس ناطے سے افغانستان کے پڑوسی و جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ عالمی اثرات سے متعلق تھا تو دوسرا پاکستان کے سیاسی منظر نامے اور مستقبل میں پاکستانی جنرل انتخابات پر اثرات و نتائج مرتب ہونے کیلئے اہم تھا۔
سعودی عرب کی تجویز اور پاکستان کی افغانستان کی صورتحال اور افغان عوام کے بگڑتے ہوئے حالات کی کوشش پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس ایک نہایت مثبت اور ہم آہنگی کا مظہر ثابت ہوا۔ اسلام آباد میں ہونیوالی اس کانفرنس میں او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ، نائب وزرائے خارجہ، جی 5 کے نمائندوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے نمائندے بھی شریک تھے۔ اجلاس کا واحد ایجنڈا طالبان کے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد سے امریکہ، نیٹو اور یورپی ممالک سمیت عالمی دنیا کی جانب سے مالی و خوراک اور دیگر سہولیات کی پابندی کے باعث 4 کروڑ افغان عوام کے تحفظ کیلئے متعدد اہم فیصلوں کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کا 13 منٹ کا خطاب کانفرنس کی اہم کلید تھا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں خصوصاً امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ طالبان حکومت کی مخالفت اور مالی و دیگر پابندیاں 4 کروڑ افغانیوں کے حقوق زیست کی دشمنی ہے جنہیں بھوک، مفلسی اور تباہی کے بحران میں دھکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحران اور ظلم Men Made اور اس سے نکلنے کیلئے عالمی مقتدرین، او آئی سی حقوق انسانی کے اداروں اور اقوام متحدہ کو آگے آنا ہوگا۔ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے طالبان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی قوتوں (امریکہ و یورپ خصوصاً) سے کئے ہوئے وعدے پورے کریں تاکہ افغان عوام بدترین حالات سے نکل سکیں۔ کانفرنس کے چھ نکاتی فیصلوں کا مقصد جہاں افغانستان کے مالی دُشواریوں سے نکالنے کیساتھ افغان عوام، اداروں کی صلاحیتوں و کارکردگی کو بڑھانے، سرمایہ کاری و بینکنگ خوراک کی فراہمی و تحفظ اور افغان حکام کے بین الاقوامی قوتوں اور اداروں سے باہم رابطوں پر متفقہ قراردادیں پاس کرنا تھا وہیں کانفرنس کا اہم ترین اقدام افغان صورتحال کی بہتری کیلئے فوری فنڈ کا اہتمام ہوا۔ سعودی عرب نے ایک ارب سعودی ریال فنڈ میں دیئے جبکہ دیگر ممالک نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ مثبت بات یہ بھی ہے کہ امریکی مندوب نے کانفرنس کے انعقاد کو افغانستان کے حالات کی بہتری کیلئے اہم سنگ میل قرار دیا۔ پاکستان کیلئے یقیناً یہ کانفرنس ایک کامیابی ہے۔ واضح رہے کہ او آئی سی اجلاس کی میزبانی اور کامیابی کو یقیناً وزیراعظم اور پی ٹی آئی حکومت کا شاندار کارنامہ کہا جا سکتا ہے لیکن کیا یہ اقدام کپتان اور ان کی حکومت کی ملک میں مقبولیت اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کی راہ استوار کر سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب کیلئے اتوار کو پی ٹی آئی کے مضبوط اور ساڑھے آٹھ سال سے زیر اقتدار صوبہ پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی صورت میں اثبات میں نظر نہیں آتا۔ اس صوبے کے پہلے مرحلے میں 65 اضلاع میں انتخابات ہونے تھے۔ ڈی آئی خان میں میئر کے انتقال کے باعث الیکشن ملتوی ہونے کے باعث 64 اضلاع میں ووٹ ڈالے گئے۔ ہماری ان سطور کے لکھے جانے تک حیرت انگیز طور پر پختونخواہ کے چاروں بڑے شہروں میں پی ٹی آئی میئر کی نشست حاصل نہیں کر سکی ہے۔ پشاور، بنوں اور کوہاٹ میں فضل الرحمن کی جمعیت کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جبکہ مردان میں اے این پی کا میئر منتخب ہوا ہے یہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر جے یو آئی 19 نشستوں کیساتھ سر فہرست ہے۔ اے این پی کے بھی سات میئر منتخب ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی 14 نشستوں پر جیت سکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آٹھ آزاد منتخب امیدوار وہ ہیں جنہیں پی ٹی آئی نے ٹکٹ نہیں دیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوبار پختونخواہ میں حکومت بنانے والے اور 2018ء میں دو تہائی اکثریت سے جیتنے والی پی ٹی آئی بلدیاتی الیکشن میں اس قدر پسپائی سے کن وجوہات کی بناء پر دوچار ہوئی ہے جبکہ کپتان ہر موقع پر انٹرویو اور ہر خطاب میں پختونخواہ کی کامیابیوں و کارناموں کا حوالہ دے کر اپنی قیادت اور ٹیم کو سراہتے رہے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کہ عمران خان کی ایمانداری، عزم، ولولے اور عوامی مفاد کے مشن نیز کرپٹ مافیا کو انجام تک پہنچانے کے بیانیئے کی وجہ سے ہم نے کپتان کی نہ صرف حمایت کی بلکہ بیشتر مواقع پر اپنے قلم کی وساطت سے ان معاملات و عناصر کی نشاندہی کرتے رہے ہیں جو ان کی نیک نیتی، مقبولیت اور آئندہ کی کامیابیوں کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ ہیں بلکہ عوام میں ان کی پسندیدگی کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ عوام نے ماضی کے حکمرانوں سے تنگ آکر خان اور ان کی پارٹی کو پذیرائی بخشی تھی لیکن گزشتہ 40 ماہ کی حکومتی کارکردگی، انتظامی انحطاط، عوام پر مہنگائی کا بوجھ، آٹا، چینی، بنیادی اشیائے ضرورت، بجلی، گیس کے بحران، کپتان سمیت ان کے وزرائ، ترجمانوں کا نزاعی و معاندانہ رویہ اور سب سے بڑھ کر خود پی ٹی آئی کی صفوں میں گروہ بندی جیسے عناصر کی ہرزہ سرائیاں آج پی ٹی آئی کے گلے کی ہڈی بن گئی ہیں۔
کپتان کے ملک و عوام کی خوشحالی کے طویل المدت منصوبے بے شک بہت اچھے ہو سکتے ہیں لیکن ایک عام آدمی جس کو اپنے اور اپنے خاندان کو زندگی سکون سے گزارنے کی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے وہ ان منصوبوں کو اہمیت دے گا یا اپنے محدود وسائل سے زندگی آسان بنانے کو ترجیح دے گا۔ ایک سفید پوش کبھی بھی لنگر خانوں کا رُخ کر کے اپنے آپ کو داغدار نہیں کرے گا۔ کرپٹ مافیا کو نہ چھوڑنے کا منتر ااب تک تو تشنۂ تکمیل ہی ہے، شنید تو یہ ہے کہ خود اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کا بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی اور بد امنی کا سیلاب بڑے بڑے شہتیروں کو بہا لے جاتا ہے۔ ابھی تو پختونخواہ میں عوامی رجحان میں تبدیلی آئی ہے جہاں پی ٹی آئی بہت مضبوط مینڈیٹ رکھتی ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات اور بعد ازاں عام انتخابات میں کیا صورتحال ہوگی، کپتان اور ان کی پارٹی کو سوچنا ہوگا۔ لفظی بارش اور تضحیک آمیز رویوں کی جگہ عوام کے مسائل پر توجہ اور عمل ہی کامیابی کی کُنجی ہے۔ دوسری صورتحال میں تبدیلی آئے گی تو ان ہی پرانے حکمرانوں کی جن کی کرپشن و لُوٹ مار کیخلاف نعروں پر آپ برسر اقتدار آئے۔ ہمارا فرض آپ کو سمجھانا ہے، عمل آپ کے ہاتھ میں ہے۔
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
٭٭٭