فلسطینی علاقوں میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی دہشت گردی جاری ہے اور اس سلسلے میں کی جانے والی ایک تازہ کارروائی کے دوران شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی جانب جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر اسرائیلی فضائی حملے میں250 سے زائد فلسطینی مہاجرین شہید ہو گئے ہیں۔ حملہ صلاح الدین سٹریٹ پر ہوا، فلسطینی وزارت صحت نے بھی وقوعہ میں 250 سے زائد افراد شہید ہونے کی تصدیق کی ہے۔ جنوب کی طرف نقل مکانی جاری ہے جبکہ اسرائیلی فوج نے زمینی کارروائی بھی شروع کر دی ہے اور صیہونی فوج نے ٹینکوں سے فلسطینی علاقوں پر چڑھائی کررہے ہیں۔ 24 گھنٹوں کے دوران 320 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 2 ہزار 215 ہو گئی ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے اب تک 8 ہزار 714 فلسطینی زخمی ہوئے۔ شہدااور زخمیوں میں بڑی تعداد بچوں اورخواتین کی ہے۔اس سلسلے میں دیگر مغربی ممالک بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کررہے ہیں لیکن امریکا کا کردار سب سے زیادہ گھناونا اور منفی ہے جو ناجائز ریاست اسرائیل کو جنگ کے سلسلے میں ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اپنے دورہ اسرائیل کے دوران جو کچھ کہا اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک جنونی صہیونی ہیں جو مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف غاصب اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کررہا ہے۔ ایک طرف انٹونی بلنکن اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو مکمل حمایت کا یقین دلارہے ہیں اور دوسری جانب دنیا کی نظروں میں خود کو امن پسند ظاہر کرنے کے لیے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کر کے بیجنگ سے مدد طلب مانگ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور حماس تنازع کو مشرق وسطی کے دیگر ممالک تک پھیلنے سے روکنے کے لیے حرکت میں آئے۔ اس کے جواب میں وانگ یی نے کہا کہ واشنگٹن کو تعمیری اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔وانگ یی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر کشیدہ معاملات سے نمٹتے ہوئے، بڑے اور اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کو سنجیدگی اور شفافیت پر عمل کرنا چاہیے۔ اس پورے معاملے میں اقوام متحدہ بھی ایک کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اور اس کے سربراہ انتونیو گوتریس منت سماجت کے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری اور ناکہ بندی کے دوران شہریوں تک خوراک، ایندھن اور پانی جیسی اشیائے ضروریہ پہنچانے کی اجازت دی جائے۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طبی رو بنیادی سہولیات منقطع کرنے کو غیر انسانی فعل قرار دیا اور اسرائیل سے فوری طور پر بنیادی سہولیات کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ محض بیانات سے صورتحال میں اگر کوئی بہتری آنی ہوتی تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا۔ فلسطین اور کشمیر دونوں گزشتہ پون صدی سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہیں لیکن دونوں مسائل اس لیے حل نہیں ہوئے کہ مسلم ممالک کے حکمران ان دونوں علاقوں میں مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی بھی اس سلسلے میں ناکام دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کی طرف سے کبھی کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس نے فلسطینیوں کے لیے کوئی سہولت پیدا کی ہو۔ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کے بارے میں بات کرنے کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی وزارتی اجلاس 18 اکتوبر کو ہو جو ناکام ہو گیا۔ جب اسرائیلی جارحیت کو شروع ہوئے بارہ روز گزر چکے ہوں گے اور اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہوں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سعودی عرب ناجائز ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کے سلسلے کو موقوف کرچکا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ رکا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی اس حوالے سے بیانات جاری کررہے ہیں لیکن ان کھوکھلے بیانات سے تو غاصب صہیونی ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ایسے معاملات میں مسلم ممالک کی نسبت روس اور چین جیسے ملکوں کا کردار زیادہ مفید دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت بھی اسرائیل کی دہشت گردی کے آگے بند باندھنے کے لیے روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پیش کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی جائے۔ شہریوں پر تشدد اور ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی جائے۔ مسودے میں یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانے، انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی اور شہریوں کا محفوظ انخلایقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں، روس نے اسرائیل فلسطین لڑائی رکوانے کے لیے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا مقصد اقوام متحدہ کے اس فارمولے پر عمل ہونا چاہیے جس کے تحت مشرقی یروشلم میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہونا ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے مظلوم فلسطینیوں کے غزہ سے جبری انخلاپر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق، گزشتہ چھے روز سے غزہ کی پٹی کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا گیا اور فلسطین کے جنگ زدہ علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی کڑی ناکہ بندی کے نتیجے میں انسانی بحران المیے میں بدل رہا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ اس سب کے باوجود مسلم ممالک کے حکمران کوئی عملی کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ان سے بہتر کردار مغربی ممالک کے ان غیر مسلم شہریوں کا دکھائی دیتا ہے جو مختلف شکلوں میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اپنی حکومتوں پر دباو ڈال رہے ہیں کہ وہ ناجائز صہیونی ریاست کی مدد بند کریں اور مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والی بربریت رکوائیں۔ مسلم ممالک اگر واقعی اس مسئلے کو حل کرانا چاہیں تو وہ غاصب اسرائیل کی حمایت کرنے والے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو مختلف ذرائع سے واضح پیغام دے کر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرا سکتے ہیں۔