پاکستان کے مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب مرحوم نے کہا تھا ہمیں یقین ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی شام اے فلسطین ستمگروں کا نشان نہ ہوگا ہمارا خون رائیگاں نہ ہوگا شہید ہو کر بھی اپنے لب پر ہے تیرا ہی نام اے فلسطین وطن سے جب تک مٹانہ لیں گے نشان ہم سامراجیوں کا قسم محمدۖ کی عظمتوں کی نہ لیں گے آرام اے فلسطین1948کو عرض فلسطین پر ایک ایسا ناسور کا پودا بویا گیا جس کے کانٹے ڈار درخت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، فلسطین جو ہزاروں سالوں سے مختلف ناموں، ریاستوں اور سلطنتوں کا حصہ بنا رہا۔ کبھی فرعونوں، بنی اسرائیلیوں کے قبضے میں رہا، کبھی خلافت راشدہ میں آزاد کیا گیا کبھی پھر صلیبیوں کا مقبوضہ ہوگیا جس کو صلاح الدین نے آزاد کرایا۔ کبھی خلافت عثمانیہ کا حصہ قرار دیا گیا جس پر برطانوی نوآبادیات نے قبضہ کرلیا جس میں ہندوستان کی مسلح فوج استعمال کی گئی تھی۔ جس کا تعلق جہلم اور چکوال سے تھا۔ آخر کار اہل فلسطین کو بطور تاحیات قیدی اور غلامی کے لئے بین الاقوامی جمہوریت کے حوالے کر دیا گیا جس پر اسرائیل نامی ریاست کا وجود لایا گیا جو ایک غیر سیاسی غیر فطری اور غیر سماجی عمل تھا۔ جس کے بھیڑ یائما قاتلوں کے ہاتھوں اب تک ہزاروں فلسطینی عوام شہید ہوچکے ہیں۔ جس نے گزشتہ75سالوں فلسطین کی ایک دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ بنا رکھا جس سے اہل فلسطین کا دنیا بھر سے رشتہ وناطہ منقطع ہوچکا ہے۔ فلسطینی عوام پر ہما وقت ظلم وستم اور بربریت جاری ہے جن کے خلاف اسرائیل باقاعدہ بچوں میزائلوں اور جدید ہتھیاروں سے محلہ آور رہتا ہے۔ جس میں اردگرد کے عرب ممالک لاتعلق رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ فلسطین کے مقدس مقام بیت المقدس کے بغیر مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہے۔ یہاں سے ہمارے نبی اکرمۖ نے شب معراج کا سفر کیا۔ جن کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبائے اکرام نے نماز ادا کی تھی۔ جس کا درجہ خانہ کعبہ سے ملتا جلتا ہے جس پر غیر مسلح کا قبضہ خانہ کعبہ پر قبضے کے مترادف ہے۔ تاہم فلسطینیوں کے حامی حکمرانوں کو عراق میں پھانسی اور لیبیا کی سڑکوں پر مار دیا گیا ہے۔ جس کے بعد آج کوئی صدام اور کرنل قذافی نہیں باقی بچا ہے جو ان کی مدد کر پائے۔ آج فلسطینی عوام پر نسل کشی جاری ہے جن پر چھ ہزار سے زیادہ خوفناک بم گرائے جاچکے ہیں ہزاروں میزائیلوں سے حملے ہو رہے ہیں پورا غازہ کی بستیاں مسمار کر دی گئی ہیں۔ ہزاروں فلسطینی عوام شہید اور زخمی کردیئے گئے ہیں۔ پورے غزہ کو ایک جیل خانہ بنا دیاگیا ہے جس کے آنے جانے والے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اہل فلسطینیوں کا کھانا پینا بند کردیا گیا ہے۔ بچوں بوڑھوں عورتوں کے لئے اشیائے زندگی کی بندش ہے کہ آج پندرہ ملین سے ز یادہ آبادی قید خانے کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ جس پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بہرحال فلسطین پر ظلم وستم، قتل وغارت گری پر روس اور چین حسب روایات بولے ہیں جنہوں نے مختلف انداز سے اہل فلسطینی کی حمایت کی ہے جبکہ امریکہ اسرائیل کو باقاعدہ ہر طرح کی مدد کر رہا ہے جس کے بموں، میزائیلوں سے فلسطینی مارے جارہے ہیں لہٰذا اسرائیل کی امریکہ جیسی واحد عالمی طاقت سے سبق حاصل کرنا ہوگا کہ جس کو افغانیوں کیخلاف طویل ترین جنگوں کے بعد شکست فاش نصیب ہوئی جس کے لئے اسرائیل کو تیار رہنا ہوگا کہ جب اس کی صوانیت پرست طاقت کو فلسطین سے اسی طرح بھاگنا پڑے گا جس طرح امریکہ ویتنام اور افغانستان سے بھاگا تھا۔ بہتر یہی ہے کہ اہل فلسطین کے ساتھ امن کے معاہدوں پر عمل کیا جائے جو اوسلو معاہدہ کی شکل میں ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہوا ہے۔ جس کے بغیر اب خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔
٭٭٭