حکومت کی سپریم کورٹ کو دھمکیاں

0
32

اسلام آباد (پاکستان نیوز) پاکستانی سیاسی جماعتوں کے درمیان اس وقت انا کی جنگ عروج پر ہے ، حکومت اور اپوزیشن اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، سپریم کورٹ کے حکم نامے پر حکومت اور اپوزیشن میں تین روزہ مذاکرات کے دوران بھی مسئلے کو کوئی قابل بھروسہ حل نہیں نکل سکا ہے ، دونوں جانب سے ملک بھر میں الیکشن ایک ہی روز کرانے پر رضا مندی ظاہر کی گئی لیکن تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا، دریں اثنا حکومت نے وزیراعظم شہباز شریف کی نااہلی کے خدشے کے پیش نظر عدالت اعظمی کیخلاف سخت زبان کا استعمال شروع کر دیا ہے ، سپیکر قومی اسمبلی سے لے کراراکین اسمبلی تک چیف جسٹس سمیت ججوں کی خوب کلاس لے رہے ہیں ، اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو نااہل قرار دیا تو نتائج اور پارلیمنٹ کے ردعمل سے سب کو ڈرنا چاہئے۔ اسپیکر راجا پرویز اشرف نے کہا کہ وزیراعظم کی نااہلی ملک کو ایسے غیر متوقع صورت حال کی جانب دھکیل دے گی جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔میزبان کے اس سوال پر کہ کیا مارشل لا لگایا جا سکتا ہے؟ اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ملک کو جس انتشار کی جانبدھکیلا جائے گا، مارشل لا بھی اسے قابو نہیں کر سکے گا، ہمیں اس طرف جانے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ آگے بہت گہری کھائی ہے۔راجا پرویز اشرف نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قومی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اپنی کارروائی کا ریکارڈ سپریم کورٹ کو فراہم کریں تو پھر پارلیمنٹ کی بالادستی کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ ایوان کے سربراہ کی حیثیت انہیں ایوان کے اس تقدس کا تحفظ کرنا ہے جو اسے آئین پاکستان نے دیا ہے، میں اپنے ادارے کو بے توقیر نہیں ہونے دوں گا۔انہوں نے کہا کہ دو ریاستی اداروں یعنی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے درمیان محاذ ا?رائی افسوس ناک ہے اور سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے دیگر اراکین قومی اسمبلی کی طرح عدلیہ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پر حملہ جاری رکھتے ہوئے اسپیکر پر زور دیا کہ وہ پورے ایوان کو ایک کمیٹی میں تبدیل کریں اور اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرنے کے حوالے سے وضاحت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو طلب کریں۔ شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر راجا پرویز اشرف سے کہا کہ وہ اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ عدالت کو فراہم نہ کریں کیونکہ وہ ارکان کی منظوری کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے۔ایوان کے دونوں اطراف نے پیر کو اسپیکر سے کہا تھا کہ وہ عدالت کو ریکارڈ فراہم نہ کریں۔سپریم کورٹ نے منگل کے روز اس قانون کے بارے میں پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا جسے پارلیمنٹ نے پہلے ہی منظور کیا تھا اور جس کا مقصد چیف جسٹس کے کچھ اختیارات کو ختم کرنا تھا، چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ نے صدر کی منظوری سے قبل ہی اس قانون پر عمل درآمد روک دیا تھا جس پر قانون سازوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کی خودمختاری اور بالادستی سے متعلق ایک سنگین معاملہ ہے، انہوں نے 1997 کے واقعے کا تذکرہ کیا جب اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر الٰہی بخش سومرو نے سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو پارلیمنٹ کا ریکارڈ فراہم کیا تھا لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس معاملے پر بحث کے لیے پورے ایوان کی ایک کمیٹی تشکیل دیں، چیف جسٹس کو بلا کر ان سے پوچھیں کہ وہ ریکارڈ کیوں اور کس مقصد کے لیے مانگ رہے ہیں۔وزیر داخلہ رانا ثنائ اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے تسلیم کیا کہ عام انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہیں، کیا ان کو اسمبلیاں توڑنے پر انعام دیا جائے؟رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو 15 دن کی گنجائش دینا بھی مناسب بات نہیں ہے لیکن ان کی دلجوئی کے لیے دیے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ سے کہے گی کہ آئین کے مطابق آگے بڑھا جائے، 14 مئی کو کوئی جنات ہی آکر الیکشن کے انتظامات کرواسکتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن سے تو انتظامات نہیں ہوسکتے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ جہاں 30 دن کی گنجائش پیدا کررہی ہے وہیں 60، 65 دنوں کی گنجائش پیدا کردے تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات ایک ہی دن کرانے کے معاملے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ا?ئی) نے حکومت کیساتھ ہوئے مذاکرات سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم نے حکومت سے مذاکرات کیے، ایک روز الیکشن کرانے پر اتفاق ہوا، لیکن تاریخ پر متفق نہ ہوسکے، اب سپریم کورٹ ایکشن لے، چودہ مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کرائے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف ایک ہی روز انتخابات کیلئے تیار ہے بشرطیکہ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کو 14 مئی یا اس سے پہلے تحلیل کر دیا جائے۔پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی متفرق درخواست میں عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے 3 ادوار ہوئے، مذاکرات میں پی ٹی آئی نے ہر ممکن حد تک لچک دکھائی۔متفرق درخواست میں گزشتہ رات مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلیکی روشنی میں پنجاب میں 14 مئی کو انتخاب کرایا جائے، مذاکراتی ٹیموں نے پوری نیک نیتی سے27 ، 28 اپریل اور 2 مئی کوبات چیت کی، گفتگو کے نتیجے میں فریقین میں تین نکات پر اتفاقِ رائے ہوا، فریقین متفقہ طور پر سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اہم ہیں، فریقین متفقہ طور پر سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی تنازعات کاحل سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ فریقین متفق ہیں کہ معاہدے پر عمل ہونے تک اس گفتگو کے سپریم کورٹ کے حکم نامے پر اثرات نہیں ہوں گے، 14مئی کو انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے جسے فریقین کی رائے سے بدلنا ممکن نہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے ایک ہی روز انتخابات کرانے کیلئے 4 شرائط پیش کیں، تحریک انصاف مشروط طور پر ایک ہی روز انتخابات کیلئے تیار ہے، شرط یہ ہے کہ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کو 14 مئی تک توڑ دیا جائے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جولائی کے دوسرے ہفتے میں کرانیکی شرط پیش کی، پنجاب، پختونخوا کے انتخابات کو 90 روز کی مدت گزر جانے کے بعد آئینی تحفظ دینیکی شرط رکھی۔درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کو آئینی تحفظ دینے کیلئے پی ٹی آئی اراکین کی ایوان میں واپسی کی شرط رکھی، سیاسی جماعتوں کیمابین باہمی اتفاق رائے سے صرف ایک بار کیلئے مؤثر آئینی ترمیم کی شرط پیش کی، تمام جماعتیں انتخابات کے نتائج قبول کریں گی، دونوں جماعتوں کے مابین تحریری معاہدہ عمل درا?مد کیلئے عدالت عظمٰی کے سامنے رکھنے کا کہا لیکن پی ڈی ایم اتحاد نے ہماری ان تجاویز سے اتفاق نہیں کیا، پی ڈی ایم اتحاد کے مطابق قومی اسمبلی ، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں 30 جولائی کوتوڑی جائیں گی، پی ڈی ایم کیمطابق انتخابات اسمبلیاں توڑنے کے 90 روز کے اندر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہوں گے، آئینی ترمیم کے ذریعے معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق بھی اتفاق رائیکافقدان ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز ملک بھر میں ایک ہی دن الیکشن کرانے کی تاریخ پر حکومتی اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اتفاق نہ ہوسکا اور مذاکرات کا تیسرا دور بھی بریک تھرو کے بغیر ہی ختم ہوگیا تھا۔مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک بھر میں ایک دن الیکشن ہونے چاہیے تاہم ایک ساتھ الیکشن کی تاریخ اور اسمبلیوں کی تحلیل پر اتفاق نہ ہوسکا۔مذاکرات کے تیسرے دور کے حوالے سے پی ٹی ا?ئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا حکومت کی جو سوچ کل دیکھی اگر وہی رہتی ہے تو مذاکرات کی مزید نشستیں بے معنی دکھائی دیتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو کچھ کہنا تھا اور جو میز پر رکھنا تھا وہ ہم نے مذاکرات میں رکھ دیا، حکومتی حلقوں نے مذاکرات کو سبوتاڑ کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، مذاکرات سے پہلے خواجہ ا?صف، جاوید لطیف کی گفتگو دیکھ لیں، مولانا فضل الرحمان کا رویہ دیکھ لیں، حکومتی نمائندوں کے رویوں اور گفتگو کے باوجود ہم نے کوشش کی۔دوسری جانب وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ گن پوائنٹ پر بات چیت نہیں ہوگی، اگر عمران خان ایسا کرے گا تو اس کا جواب ایسے ہی آئے گا جیسا میں اور میرے ساتھی دے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم 14 مئی تک اسمبلی توڑنے کا مطالبہ مان لیں، نہ ہم مانیں گے اور نہ ہی پی ڈی ایم کی کوئی جماعت مانے گی۔دریں اثنا الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخوں پر نظرثانی درخواست دائر کردی۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے کیس میں 14مئی کو الیکشن کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کی ہے۔الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ سے اپنے 4 اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار عدلیہ کو حاصل نہیں، آئین بنانے والوں نے عدلیہ کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ انتخابات کے لیے تاریخ دے۔الیکشن کمیشن نے درخواست میں کہا ہے کہ آئین پاکستان نے اداروں کے اختیارات کو بالکل واضح کر رکھا ہے اس لیے سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دے کرطے شدہ قانون کو تبدیل کیا لہٰذا سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینے کی غلطی کو درست کرے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here