مساجد میں جاسوسی: ایف بی آئی کیخلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر

0
86

نیویارک (پاکستان نیوز)ایف بی آئی کی جانب سے مسلمانوں کی جاسوسی کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا جو اب موبائل فونز سے نکل کر مساجد تک آن پہنچا ہے ، ایف بی آئی کی خفیہ کارروائیوں سے مسلم کمیونٹی کی پرائیویسی دائو پر لگ گئی ہے جبکہ مذہبی آزادی کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں ،مسلم کمیونٹی میں اس معاملے پر شدید اضطراب پایا جا رہا ہے کہ بغیرکسی وجہ اور کسی کے علم میں لائے بغیر نمازیوں اور مسلمانوں کی انفرادی گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا جبکہ ویڈیوز بھی بنائی گئی ہیں۔ کیلیفورنیا کی اورنج کاؤنٹی اسلامک فاؤنڈیشن کے امام یاسر فزاگا ، علی الدین ملک اور یاسر عبدالرحیم کی جانب سے اسلامک سینٹر میں ایف بی آئی ایجنٹ کی موجودگی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا جس کی سماعت میں ججز نے دونوں فریقین کے دلائل سنے ،امام مسجد فزاگا نے عدالت میںموقف اپنایا کہ ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ، ایف بی آئی کے ایجنٹ نے لائسنس پلیٹ نمبرز ریکارڈ کیے اور ان لوگوں کی تصاویر لیں جو مسجد میں آ رہے تھے۔ اور وہ لوگوں کو “لفظی طور پر اکسانے کے لیے آمادہ” کر رہا تھا تاکہ نمایوں کو “دہشت گرد ” کے طور پر دکھایا جا سکے ۔عدالت میں موقف پیش کرتے ہوئے ایف بی آئی کے ایجنٹ کریگ مونٹیلہ نے کہا کہ انہیں مسلم کمیونٹی کی نگرانی کے لیے بھیجا گیا تھا ، اس نے مسجد میں نمازیوں اور انتظامیہ کی گفتگو ریکارڈ کی ہے ۔امام مسجد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں ایک ریموٹ ڈیوائس بھی ملی تھی جوکہ نمازیوں اور دیگر افراد کی گفتگو کو ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال میں لائی جا رہی تھی ۔ محکمہ انصاف نے مؤقف اختیار کیا کہ نگرانی کا پروگرام معروضی وجوہات کی بنا پر تھا اس لیے نہیں کہ وہ لوگ مسلمان تھے۔کیلیفورنیا کی ایک ضلعی عدالت نے ایف بی آئی کی اس دلیل کو قبول کرتے ہوئے مدعی کے دعوے کو مسترد کر دیا کہ ریاستی راز افشا ہونے کا خطرہ ہے لیکن یو ایس نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیل نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ماتحت عدالت کو کسی بھی خفیہ شواہد کا جائزہ لینے کے لیے بند کمرے میں سماعت کرنی چاہئے تھی۔مدعی کے مطابق ایف بی آئی نے 2006 اور 2007 میں اورنج کاؤنٹی کی متعدد مساجد میں مجرمانہ تاریخ رکھنے والے ایک مخبر کو بھیجا، جس کو مذہب تبدیل کرنے اور معلومات جمع کرنے کا حکم دیا گیا۔مدعیان کی نمائندگی کرنے والے شہری حقوق کے گروپ اے سی ایل یو نے کہا کہ مخبر نے خفیہ طور پر مساجد، گھروں اور کاروبار میں نمازی گروپوں کو ریکارڈ کیا اور ویڈیوز بنائی۔اے سی ایل یو کے وکیل احلان نے کہا کہ مخبر نے عراق اور افغانستان میں بمباری، جہاد اور جنگ جیسی چیزوں کے بارے میں بات کی تو انہوں نے اس کی اطلاع ایف بی آئی کو دی۔امام اور ان کے دو دیگر افراد نے ایف بی آئی کے خلاف وفاقی قانون اور ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کی جاسوسی کرنے کی شکایت درج کرائی۔سپریم کورٹ کے کئی جج حکومت کے معاملے پر ہمدرد نظر آتے ہیں۔ایک قدامت پسند جسٹس سیموئیل الیٹو نے کہا کہ ملک بھر کی ضلعی عدالتوں میں کچھ انتہائی خفیہ معلومات سے نمٹنا ایک ناقابل یقین سیکیورٹی مسئلہ پیدا کر دے گا۔انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ضلعی عدالتوں میں اس حساسیت کی معلومات سے نمٹنے کے لیے سہولیات نہیں ہیں۔جسٹس بریٹ کیوانا نے کہا کہ یہ ایسی معلومات نہیں ہے جس کے ارد گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here