آپ کی شاعری اور شاعروں کے بارے میں تحریر پسند آئی۔ آپ نے شاعروں کے فرائض گنواتے ہوئے بجا طور پر لکھا کہ شاعروں کو آزادی اور انقلاب کی حمایت میں قلم اٹھانا چائیے۔ آپ نے مزید تجویز دی کہ کشمیریوں کی آزادی پر کشمیری شاعر عبد الاحد آزاد اور مہجور کے علاوہ کسی شاعر نے نہیں لکھا۔ آپ نے گلگت بلتستان کے شاعر جمشید خان کی تعریف کی کہ انہوں نے آزادی کے بارے میں کلام لکھا۔ آپ کی باتیں احسن ہیں لیکن میری گزارش بھی توجہ طلب ہے۔ عصرِ حاضر کے شاعروں کا اخلاقی اور انسانی فرض ہے کہ وہ کشمیریوں کے حقوق اور آزاد ی پر لکھیں۔ آپ کی تحریر نے مجھے مجبور کیا کہ چند سطور آپ کے گوش گزار کروں۔ کشمیریوں کی آزادی پر نظم اور نثر میں کئی کتب لکھی گئی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور اس ضمن میں بہت کام کی ضرورت ہے۔ یہ خود ستائی نہیں حقیقت بیانی ہے کہ میرے خاندان کی کشمیر پر جو کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں۔
میرے والد قبلہ تحسین جعفری کی کشمیر پر شائع شدہ کتب۔
جنتِ سوزاں ( اردو شاعری)
کشمیر : لوک روایات کے آئینہ میں
( لوک ورثہ۔ وزارت ثقافت حکومت پاکستان)
تحسین جعفری : ایک مطالعہ : کشمیری شاعر
از پروفیسر منشور بانہالی – شائع شدہ کشمیر ادبی و ثقافتی اکادمی – حکومت کشمیر سری نگر)میری دانشوروں ، ادیبوں،شاعروں اور کالم نگاروں سے استدعا ہے کہ وہ مسعل کشمیر کو اپنی تحریروں میں اُجاگر کریں ۔ یہ ان پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ہے،میں آخر میں اس بات کا ذکر اپنا قومی اور اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ کشمیر کے سپوت نامور صحافی رفیق حسین بٹ صاحب کو خراجِ تحسین پیش کروں جنہوں نے حال ہی میں کشمیر پر کتاب دھرتی کا فرزند لکھی اور مسعل کشمیر کو بطریقِ احسن پیش کیا۔ اس کتاب کی تقریبِ رونمائی فروری کو پریس نیشنل کلب اسلام آباد میں ہوئی۔ تقریب کی صدارت کا مجھے اعزاز حاصل ہوا جبکہ مہمانِ خصوصی نامور صحافی وزیرِ اعظم پاکستان کے ترجمان اور معاونِ خصوصی سید فہد حسین تھے۔ ممتاز دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں نے مسعل کشمیر پر بھر پور روشنی ڈالی۔ کشمیر پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل میں زندہ ، تابندہ اور پائندہ ہے۔
٭٭٭