ضرورت مندوں کی کفالت!!!

1
191
مجیب ایس لودھی

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ، قدرت جب جوش میں آتی ہے تو زمین آسمان ایک کر دیتی ہے ، ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے،دور حاضر کی تازہ مثال” کرونا” ہمارے سامنے ہے ، 2020میں کرونا وبا نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے جو ممالک غریبوں کی کفالت کے لیے ہزاروں ٹن خوراک غریب ممالک کو دیتے تھے آج خود ان کے ملک میں غریبوں کی امداد لینے کیلئے لائنیں لگی ہوئی ہیں ، ہر روز امریکہ کے مختلف شہروں میں حکومت ضرورت مندوں کو خوراک مہیا کر رہی ہے ، مختلف رفاعی تنظیموں کے ذریعہ گھر گھر خوراک کی تقسیم ہو رہی ہے ، ان تنظیموں میں مسلم رفاعی تنظیمیں بھی بڑھ چڑھ کر اپنا رول ادا کررہی ہیں جس میں اکنا ریلیف سر فہرست ہے ، ہر روز ایک لمبی قطار اس تنظیم کے دروازے پر ضرورت مندوں کی نظر آتی ہے ، اکنا ریلیف کے پانچ بیورو میں سے تین بیورو میں آفیسرز ہیں ، کوئینز میں معاوذ صدیقی ،برانکس میں شبیر گل ، بروکلین میں محمد انور بھائی اور لانگ آئی لینڈ میں ارشد جمال بھائی جوکہ اکنا ریلیف نیویارک کے انچارج ہیں ان کے ہمراہ برادر شاہد اور کئی نامور نام اپنی خدمات خاموشی سے انجام دے رہے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بڑی مقدار میں راشن مہیا کرتی ہے ، اس راشن کو ضرورت مندوں تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں ہے ، اس کے علاوہ اکنا ریلیف ایک بڑی تعداد میں ضرورت مندوں کی ضروریات حکومت کی معاونت کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت پوری کرتی ہے ،جب میں نے تفتیش کی تو مجھے حیرت ہوئی کہ اکثر اکنا ریلیف کے آفس ”اپنی مدد آپ”کے تحت چل رہے ہیں جس طرح اکنا ریلیف کے برانکس آفس کو شبیر گل چلا رہے ہیں وہ اپنی جگہ معجزہ ہے ، حکومت کی جانب سے صرف راشن مہیا کیا جاتا ہے لیکن اس راشن کو ٹرک سے اتارنا ، اسے سنبھالنا اور پھر پر امن طریقہ سے ضرورت مندوں تک پہنچانا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ، خود شبیر گل اور ان کے ساتھی بغیر کسی تنخواہ،حکومت اور تنظیم کی کسی بھی طور پر مدد کے بغیر تن دہی سے فرائض انجام دے رہے ہیں ،یہی حال دوسرے آفیسرز کا بھی ہے ،صرف چند لوگوں کو معمولی تنخواہ ملتی ہے ورنہ اکثر اکنا ریلیف کے آفیسرز دوسری نوکری کر کے اپنے گھر کی کفالت کرتے ہیں ، قارئین جو کچھ میں لکھ رہا ہوں ،مجبور ہو کر لکھ رہا ہوں کیونکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اکنا ریلیف کے رضا کاروں کو بڑی بڑی تنخواہیں ملتی ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے ، مجھے اس مضمون کیلئے کسی نے نہیں کہا اور نہ ہی کوئی کہہ سکتا ہے ، میں اپنی سوچ لے کر چلنے والا شخص ہوں ، برانکس میں جس طرح شبیر گل ضرورت مندوں کی خدمت کررہا ہے ،کم از کم ہماری کمیونٹی کو اسے سراہنا چاہئے اور اس خدائی خدمت گار کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں ، اس خدمت میں ان کے کئی ساتھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن جس طرح شبیر گل روزانہ ہفتہ میں سات دن کام کرتے نظر آتے ہیں ، کمیونٹی کے مزید مخیر لوگوں کو اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے ، کیا ہمارے مخیر حضرات کو نہیں معلوم کہ ہر چیز اس دنیا میں فانی ہے ، وقت تیزی سے گزر رہا ہے یو ں لگتا ہے کہ ہم کل ہی امریکہ آئے تھے جس عمر میں ہم امریکہ آئے تھے آج ہماری اولاد اس عمر میں آ چکی ہے اور پھر گزشتہ ایک سال میں کئی پیارے ،دوست ، عزیز لمحوں میں ہمارے سامنے چلے گئے ، میں ان تمام حاسدوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی بھی وقت ہے ، نیک کاموں کی جانب آجائو ،ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لو اور نیک کام میں اپنا حصہ ڈالو کیونکہ شیطانی سوچ سے کچھ حاصل نہ ہوگا اور ماضی کو بھُلا کر اچھے مستقبل کی بات کریں، اچھے کام کریں ، اکنا ریلیف کے ساتھ مل کر اپنا حصہ ڈالیں ،میرا تجربہ ہے کہ دنیا میں اچھے کاموں کا صلہ آخرت میں تو ملتا ہی ہے ، دنیا میں بھی ضرورملتا ہے !!
٭٭٭

1 COMMENT

  1. اسلام وعلیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ صلو علیہ وآلہ وسلّم صلے علی محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ۔ آپ کا اور تمام انسانیت کا مقروض ھوں میں اور صرف ھر دو چند بات کیلئے حاضر ھوا ھوں لفظ معجزہ کا استعمال آپ آنحضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کیلئے تھا اور آپ آنحضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر ختم ھوا یہ قرآن پاک کا اور احادیث پر درج ھے ۔ پڑھے لکھے لوگوں کو جب لفظ معجزہ آج کل کے لوگوں کے ساتھ ملا کر سنتا اور دیکھتا ھوں علامہ اسرار احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ کا فرمان سامنے آ جاتا ھے ھے کہ یہ لفظ معجزہ کو انکل کے لوگوں کے ساتھ جوڑنا انتہائی گناہ ھے اور جلد بازی کا شکار ھیں ھم حقیر لوگ ھیں اس کو بھی سمجھیں تو لحاظ اس گناہ کا ارتکاب ناکریں جنت تو اس کو ھی ملے گی جس نے والدین کے حقوق پورے کئے جس نے والدین کو دتکارا وہ بھلے حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہا سے بڑا خیر خواہ بن جائے مساجد بنا لے وہ جہنمی ھی ھے ۔ خود معافی میں پہل کریں اب وقت آگیا ھے کہ وہ کریں جو قرآن کریم میں ارشاد ھے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here