قارون کے سامنے امت کے بزرگ بڑے بوڑھے اکٹھے ہوکر پہنچے۔قارون سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے کرم سے نوازا ہے۔ایسا کر کہ تکبر چھوڑ کر سیدھا سادھا انسان بن جا،اپنے بہن بھائیوں پر رحم کرآخرت کیلئے بھی کچھ کر ،ہم یہ نہیں کہتے کہ تو دنیا سے فائدہ نہ اکٹھا کربس آخرت کی فکر بھی کر۔قارون نے کہا یہ جو مال و دولت دیکھ رہے ہو یہ تو میری ہوشیاری اور چالاکی کا ثمر ہے۔قارون جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قریبی عزیز تھا۔نوریت کا بہترین قاری خوبصورت بھی بلا کا تھالیکن اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں خوبصورت بھی ہوں۔خوش آواز بھی ہوںاور مالدار بھی ہوں۔پھر کیا وجہ ہے عزت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہت زیادہ ہے۔اصل میں ذخیرہ اندوزی کا فن اس کے ہاتھ آگیا تھااور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مالدار ہوتا چلا گیا، خزانے بھرتے چلے گئے حتیٰ کہ لوگوں کی ایک جماعت خزانہ سنبھالنے کے لئے رکھنی پڑی۔جب زکواة کا حکم آیا،ہزاروں ان حصہ جب حساب کیا تو کروڑوں تک جاپہنچی،بخل غالب آگیا۔زکواة کا منکر ہوگیا۔الٹا حضرت موسیٰ علیہ پر الزام لگا دیا کہ حضرت موسیٰ اللہ کا نام لیکر ہمارے مالوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اس نے حضرت موسیٰ پر طرح طرح کے الزام لگانے شروع کردیئے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لئے ایک گندی اور گھنائونی چال چلی۔ایک عورت کو بہت زیادہ مال و دولت کا لالچ دیا کہ وہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام وعظ کر رہے ہیں۔وہ آئے اور آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کاری کا الزام لگائے تاکہ میں حضرت موسیٰ کو رحم کرا سکوں چنانچہ جب مجمع عام میں حضرت موسیٰ پر اس عورت نے الزام لگا دیاتو قارون آگے بڑھاتاکہ حضرت موسیٰ کو رحم کراسکے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عورت سے کہا ،اے عورت تجھے اس خدا کی قسم جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا کو پھاڑا۔بنی اسرائیل عافیت وسلامتی کے ساتھ فرعون کے ظلم وستم سے محفوظ ہوئی۔سچ بتائو عورت کانپنے لگ گئی اور سچ بتا دیا بس پھر کیا تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام سجدہ میں چلے گئے اور دعا مانگی اے اللہ اس قارون کو مال ودولت سازوسامان کے ساتھ زمین میں دھنسا دے سجدہ سے سر اٹھا کر کہا لوگو قارون سے الگ ہوجائو۔اب اس کا انجام دیکھو۔اللہ کریم نے زمین کو حکم دیا،پکڑ لو قارون رونے گڑ گڑانے لگا ۔قرابت داری،رشتہ داری کا واسطہ دیامگر وہ سازوسامان سمیت زمین دھنستا چلا گیابالاخر زمین برابر ہوگئی۔مال ودولت نے اسے زور آور کردیا،اللہ کے فضل کی بجائے اپنی ذات پر بھروسہ کیا اور چالاکی پر غرور کیا ،سو سب کچھ ختم ہوگیا۔
٭٭٭