برلن(پاکستان نیوز) جرمنی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ موئنسٹر شہر کے کیتھولک ڈائیوسیز میں 1945 سے 2020 کے درمیان 196 پادریوں نے کم از کم 600 نوجوانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرین کی اصل تعداد 10 گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ مسیحیت میں ڈائیسیز گرجاگھروں کے ایک گروپ کو کہا جاتا ہے جس کی نگرانی ایک بشپ کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف موئنسٹر کی رپورٹ کے مطابق ڈائیوسیز کے پاس جنسی تشدد کے شکار 610 افراد کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے۔ اس تحقیق میں شامل مرخ نتالی پورونک کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے شکار افراد کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک 196 پادریوں نے جنسی زیادتی کے کم از کم 5700 انفرادی فعل کیے۔ پانچ فیصد پادری عادی مجرم پائے گئے اور انہوں نے 10 سے زیادہ افراد کے ساتھ جنسی زیادتی کی جبکہ 10 فیصد سے کم پادریوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنسی زیادتی کے شکار افراد میں ہر چار میں سے تین لڑکے تھے اور زیادہ تر کی عمریں 10 سے 14 برس کے درمیان تھیں۔ جنسی زیادتی کے شکار افراد ڈپریشن میں مبتلا ہوئے اور 27 کیسز ایسے تھے جس میں انہوں نے خودکشی کی کوشش کی۔ موئنسٹر کے بشپ فیلکس جین کی جانب سے اس رپورٹ پر ابھی تفصیلی تبصرہ کرنا باقی ہے۔ فیلکس جین 2009 سے موئنسٹر کے نگران ہیں۔ تاہم رپورٹ مرتب کرنے والوں نے ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنسی زیادتی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بشپ فیلکس جین نے رپورٹ ابھی نہیں دیکھی تاہم انہوں نے ایک بیان میں جنسی زیادتی کے شکار افراد سے معافی مانگی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان کو چرچ کی فائلوں تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کی گئی اور انہوں نے جنسی زیادتی کے متاثرین سے بھی بات چیت کی۔