دماغی آسیب!!!

0
95
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ۔ یہ موضوع بہت اہم اور نازک ہے اکثر عاملین ایسے کیسز میں ناکام ہو جاتے ہیں اور مریض کو نفسیاتی اور پاگل قرار دے دیتے ہیں ، اس علم و فن میں کمال صرف اس روحانی طبیب کا ہے جو تشخیص کی بھرپور قابلیت رکھتا ہو ،عام گلیوں میں کھلے آستانوں پر بیٹھ کر دھواں بھرے کمرے اور تسبیح گھمانے والی شخصیت سے بالا تر صاحب علم ہو اور اس کام کو مذاق نہ سمجھے ۔روحانی علاج قریبا ہر مذہب میں موجود ہے بالخصوص اہل کتاب ادعیان میں خیر یہ میرا موضوع بھی نہیں ہے بہت جلد اوج مریخ آرہا ہے ایسے وقت ان مریضوں کیلئے الواح ، تعویزات اور اعمال کیئے جاتے ہیں جو بیماری سے عاجز آچکے ہوں اس وجہ سے جو لوگ سنجیدہ ہیں وہ رابطہ کرسکتے ہیں۔ دماغی آسی۔ ایسے مریض پر عاملین سب سے زیادہ غلطی حاضری کی کرتے ہیں حاضری بہت کم ہوتی ہے ان مریضوں پر لیکن ہو بھی جاتی ہے۔ ایسے مریضوں کو دورہ بھی نہیں پڑتا بس کچھ دماغی علامات ہوتی ہیں ۔ جو بلکل نفسیاتی مریض کی طرح ہوتی ہیں ۔ چلیں آپکو ایک tip دیتا ہوں کہیں سے نہیں ملے گی ۔ روح کا مقام دماغ ہوتا ہے جب روح بیمار ہوگی تو دماغ بھی بیمار یا جب دماغ بیمار ہوگا تب روح بھی بیمار ۔ یہی وجہ ہے مرگی مجذوب پاگل کا جب بھی حساب کریں ہمیشہ جادو جنات ہی آئے گا ۔ لیکن ہمارے عاملین حضرات کو تشخیص کرنی ہی نہیں آتی وہی گھسے پٹے طریقوں سے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں ۔ اسی طرح کا ایک کیس میرے ایک جاننے والے کے بیٹے ساتھ تھا سارا گھر فکر مند تھا مجھ سے بچہ کا ذکر کیا فوری اللہ پاک نے مدد کی منکشف ہوا دماغی آسیب کے نقش سے علاج کرو مریض کو دس نقوش دیئے ایک صبح ایک شام ۔ تیسرے دن ہی مٹھائی سے منہ میٹھا کیا گیا اللہ پاک نے عزت رکھی ۔ جادو ہو یا آسیب اس کا اثر دماغ پر ہی زیادہ ہوتا ہے اور وسوسہ اچانک بڑھ جاتا ہے انسان ڈرنے لگتا ہے دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے ایسی علامات ہوں تو کسی قابل روحانی طبیب سے علاج فوری کارگر ہوتا ہے اور مریض کو نئی زندگی مل جاتی ہے امراض خبیثہ کی طرح اگر اس کا علاج نہ کرایا جائے تو یہ مرض کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور مریض دائمی مریض بن کر رہ جاتا ہے ۔ اگر آپ کے وسائل اجازت نہ دیتے ہوں تو روز صبح و شام گھر میں لوبان کی دھونی کا اہتمام کریں اور بوقت فجر و عشا سے قبل حصار کریں جس کا طریقہ یہ ہے تعویز و تسمیہ شریف پڑھ کر سورت فاتحہ اور سورت فلق و سورت الناس پھر آیت الکرسی پڑھ کر مریض پر دم کریں اور تین بار زور سے تالی بجائیں اول و آخر درود شریف طاق تعداد میں پڑھیں ۔ بس اس طرح سے حصار ہوجاتا ہے اب یہی قرآت آپ پانی پر دم کریں گے اس میں سے کچھ پانی مریض پر چھڑکیں باقی جگ میں بھر کر رکھ لیں اور اس کو پلاتے رہیں مریض یہی پانی استعمال کرے ۔اب قارئین کرام یہ میرا یا کسی بھی صاحب علم کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ کلام الٰہی کی برکت ہے جو ہزارہا لوگ بیماری سے شفایاب ہوجاتے ہیں میرا یہ زریعہ معاش نہیں ہے اور مجھے محنت مزدوری کرکے ہی مزہ آتا ہے یہ تمام علاج مع طریقہ کار لکھ دیتا ہوں یہی وجہ ہے روایتی عاملوں کو ایک نظر نہیں بھاتا، ان کا دھندہ دائو پر لگا ہوتا ہے خیر مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں جتنا چاہے اعتراض کریں میں خدمت خلق کرتا رہا ہوں اور کرتا رہونگا ۔
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
میں تو بن گیا ہوں اور تو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔عشق کے لغوی معنی تو پھٹ جانے کے ہیں مگر متصوفانہ اصطلاح میں عشق کی تعریف دراصل یقین کے انتہائی مقام کی صورت میں کی جاتی ہے، عشق کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے تصوف کا علاقہ اس لیے مستعار لیا گیا کہ عشق کی وضاحت پر سب سے زیادہ علمی کام اب تک صوفیا ہی کر سکے ہیں، ایک صوفی عشق کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں، “عشق اس آگ کا نام ہے جو عاشقوں کے دل اور سینے میں جلتی رہتی ہے اور خدا کے سوا جو کچھ ہے اسے جلا کر خاکستر کر دیتی ہے” بالکل یہی کیفیت ایک انسان کی دوسرے انسان کے لیے بھی بیدار ہو سکتی ہے جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشق مجازی کہتے ہیں عرفِ عام میں عشق کی دو ہی صورتیں ہیں یعنی عشق مجازی اور عشق حقیقی، عشقِ مجازی دراصل ایک انسان کے مکمل وجود یا کسی ایک حصے سے شدید پیار کرنا اور اپنی طلب کو وجودِ محبوب کے دائرے تک محدود رکھنا، دوسرے لفظوں میں کسی ایک بنی نوع انسان کے لیے اپنے آپ کو اس کی خواہشات کے مطابق ڈھال لینا یا وقف کر دینا عشق مجازی ہے جبکہ عشقِ حقیقی میں محبوب کے وجود سے ماورا ہو کر اس کی ذات کا طالب بن جانا، اس صورت میں محبوب کا وجود موجود ہونا لازم نہیں کیونکہ یہاں وجود کی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی۔ اسی کو فنا فی اللہ کہتے ہیں۔ فنا فی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی مرضی اور خواہشات کو اللہ کی مرضی اور اس کے احکام کے مطابق کر لو۔
اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کامل اطاعت و اتباع کو فنا فی الرسول کھا جاتاہے،فنافی الشیخ یہ ہے کہ مرید اپنے ارادے اور خواہش کو مرشد کے سامنے surrender کر دے ،اس صورت میں شیخ و مرشد کا خود، اللہ و رسول مطیع و فرماں بردارہونا از حد ضروری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here