فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ !!!

0
150

محترم قارئین! اللہ تعالیٰ نے حج کی فرضیت کو یوں بیان فرمایا ہے ” اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے، جو اس تک چل سکیں” حج نو9ہجری کو فرض ہوا، کلمہ، نماز، روزہ اور زکواة کی طرح حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے۔ اس کا فرض ہونا قطعی اور یقینی ہے اس کی فرضیت کا منکر ہے کافر اور باوجود مالدار ہونے کے اس کی ادائیگی میں دیر کرنے والا ہے گنہگار اور اس کو ترک کرنے والا ہے فاسق اور ہے عذاب جہنم کا سزاوار، حضرات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سروردو عالمۖ نے ارشاد فرمایا: ”جس نے حج کیا پس نہ فحش کلام اور نہ کوئی گناہ کیا تو جب وہ واپس گھر کو آئے گا تو وہ اس دن کی طرح ہوجائے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا(مشکوة شریف) علی بن الموفق نامی ایک بزرگ تھے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ایک سال میں نے حج کیا عرفہ کی شب دو فرشتے خواب میں دیکھے کہ سبز لباس پہنے آسمان سے اترے۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ جانتا ہے اب کے سال کتنے حاجی تھے۔ اس نے کہا: نہیں: بولا! چھ لاکھ پھر کہا یہ جانتا ہے کہ کتنے حاجیوں کا حج قبول ہوا اس نے کہا کہ نہیں کہا کہ6آدمیوں کا یہ بزرگ کہتے ہیں کہ میں ان فرشتوں کی باتوں کے خوف سے جاگ پڑا اور نہایت غمگین اور سخت فکرمند ہوا اور اپنے جی میں کہا کہ میں ان چھ آدمیوں میں سے ہرگز نہ ہوں گا اس فکرورنج میں مشعرالحرام میں پہنچا۔ وہاں سو گیا ان ہی دونوں فرشتوں کو پھر دیکھا کہ آپس میں وہی دونوں باتیں کرتے ہیں اس وقت ایک نے دوسرے سے کہا کہ تجھے معلوم ہے کہ آج رات خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے بار ے میں کیا حکم دیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ نہیں پہلے نے کہا کہ ان چھ کے طفیل چھ لاکھ کو بخش دیا پھر میں خواب سے خوش خوش اٹھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ حضورۖ کا فرمان عالیشان ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر سال چھ لاکھ بندے حج کے ذریعہ خانہ کعبہ کی زیارت کریں گے اگر کم ہوں گے تو فرشتے بھیج دیئے جائیں گے تاکہ یہ تعداد پوری ہوجائے اور قیامت کے دن خانہ کعبہ میں جلوہ آراء کی مانند ہوگا اور حاجی لوگ اس کے گرد پھرتے ہوں گے اور اس کے پائوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ یہاں تک کہ خانہ کعبہ بہشت میں داخل ہوگا اور تمام حاجی لوگ اس کے ساتھ بہشت میں داخل ہوں گے(کیمیائے سعادت) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنوں میں سے چار دن، مہینوں میں سے چار مہینے اور عورتوں میں سے چار عورتیں پسند فرمائی ہیں۔ چار آدمی جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اور چار آدمیوں کی جنت ازخود مشتاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دنوں میں سے پہلا دن جمعہ کا ہے۔ اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس میں جب کوئی اللہ سے دنیا یا آخرت کے متعلق دعا کرتا ہے تو وہ پوری ہوجاتی ہے دوسرانویں ذوالحجہ یعنی عرفہ کا دن، اس دن اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے کہ جائو دیکھو میرے بندے بکھرے بال غبار آلود چہرے، مال خرچ کرکے، مشقت برداشت کرکے حاضر ہوئے ہیں۔ تم گواہ رہو کہ میں نے انہیں بخش دیا تیسرا دن قربانی کا ہے قربانی سے بندہ قرب الٰہی طلب کرتا ہے جونہی قربانی کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے وہ بندے کے ہر گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے چوتھا عیدالفطر کا دن ہے جس دن روزے رکھنے کے بعد نماز عید کے لئے بندے جمع ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو فرماتا ہے کہ ہر مزدور اپنی روزی مانگتا ہے میرے بندوں نے پورے مہینے کے روزے رکھے اب عید کے لئے نکلے ہیں وہ مزدوری مانگتے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے انہیں بخش دیا اور پکارنے والا کہتا ہے: اے امت محمد!ۖ تم واپس جائو، اللہ تعالیٰ نے تمہاری برائیوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کردیا ہے۔ اللہ کے چار پسندیدہ مہینے یہ ہیں ر جب جو تنہا یعنی علیحدہ ہے۔ ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم اللہ کے حضور میں جن عورتوں کا مقام زیادہ ہے وہ یہ ہیں۔سید فاطمہ بنت محمدۖ۔سیدہ مریم بنت عمران علیھا السلام۔ سیدہ ام المئومنین خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہ بنت خویلا۔ فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنھا چار قوموں میں سبقت لے جانے والے یعنی جو نبی کریمۖ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ عربوں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، اہل فارس میں سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ۔ اہل روم میں حضرت ضہیب رومی رضی اللہ عنہ، اہل حبشہ میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ، وہ جن کی جنت مشتاق ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت سلمان فارسی، حضرت عماربن یاسر اور حضرت حقدار بن اسود رضی اللہ عنھم، حضورۖ نے فرمایا: جس نے آٹھویں ذی الحجہ کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے برابر ثواب عطا فرمائے گا۔ آپۖ سے روایت ہے کہ حب عرفہ کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن اپنی رحمت کو پھیلا دیتا ہے۔ اس دن دوزخ سے نجات سب سے زیادہ لوگ پاتے ہیں جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا اس کے سال گزشتہ اور سال آئندہ کے گناہ بھی معاف کردیئے جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہیں اور اسکی رحمت کے امیدوار رہیں تو بیڑا پار ہے۔بس اللہ تعالیٰ اس سال1444ء حج کرنے والوں کا حج قبول فرمائے اور سب امت مسلمہ کو یہ سعادت بار بار باادب عطا فرمائے(آمین) باقی روضہ انور علیٰ صاحبھا الصلوة والسلام کی باادب حاضری پہلے ہے ورنہ سب کچھ بے کار ہے پہلے کا مطلب ضروری ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here