قارئین کرام! آج جب ہم یہ سطور تحریر کر رہے ہیں تو ہمیں سورة عمران کی آیت یاد آرہی ہے جس کا ترجمہ ہے ،(دنیا میں) انہیں جو عیش حاصل ہے وہ بہت تھوڑا سا ہے اور ان کیلئے دردناک عذاب تیار ہے”۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشروں میں جب برائیاں حد سے تجاوز کر جائیں، ہر طرف جھوٹ، منافقت، خود غرضی، لالچ اور تقسیم کا دور دورہ ہو اور طبقاتی کشمکش انتہاء کو پہنچ جائے تو قہر الٰہی ایک لازمی امر ہوتا ہے خواہ قدرتی و ارضی آفات کی صورت میں ہو یا حادثات و تکالیف کی وجہ سے ہو۔ مملکت خداداد پاکستان کے موجودہ حالات اس سچائی کو اُجاگر کر رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ان تمام برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جو آخرت میں ہی نہیں عارضی عیش و عشرت کی تگ و دو کی خواہشات و اعمال کے باعث دنیاوی عذاب کا بھی سبب بن رہاہے۔ رب تعالیٰ کے اپنے حبیبۖ سے وعدے کے موجب گزشتہ امتوں و اقوام کی طرح انہیں ختم تو نہیں کیا جا رہا ہے لیکن مختلف آفات و حادثات کے باعث انہیں یہ وعید دی جا رہی ہے کہ اپنے اعمال کو درست کریں کہ دنیاوی زندگی عارضی ہے اور آخرت کو بہتر بنانے کیلئے اپنے اعمال کی درستگی پر چلا جائے لیکن شاید ہمارے افراد و عمال دنیاوی عیش کے حصول میں سب کچھ نظر انداز کر رہے ہیں،ا س میں معاشرے کے کسی طبقے کی کوئی تخصیص نہیں ہے حکمرانوں، ذمہ داروں سے عوام تک سب ہی شامل ہیں اور نتیجہ نقصان، بربادی بے سکونی و تباہی سے مرتب ہے۔
وطن عزیز میں سیاسی، معاشرتی، معاشی و اخلاقی انحطاط اور عدم استحکام کی جو صورتحال ہے اس پر اپنے تاثرات لکھ لکھ کر تو ہم تھک چکے ہیں، عیش و عشرت اور متمول زندگی کے حصول اور ناداری سے نجات کی خواہش میں جو ہماری قوم کا ضیاع ہو رہا ہے اس کی تازہ ترین مثال 14 جون کوبحیرۂ روم میں یونان کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی ہے جس میں 400 پاکستانی بہتر زندگی کے حصول کیلئے انسانی اسمگلروں کے توسط سے یورپ جانا چاہتے تھے اور تباہی و موت سے دوچار ہوئے۔ اس حوالے سے حقائق و انکشافات سامنے آرہے ہیں وہ بھیانک ہی نہیں، اس حقیقت کو بھی سامنے لا رہے ہیں کہ ہیومن اسمگلنگ کے اس انسانیت سوز دھندے کی وجہ صرف بڑھتی ہوئی غربت اور بہتر زندگی کا حصول ہی نہیں یہ ایک عالمگیر کاروبار ہے جس کی جڑیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس میں انسانی اسمگلر ہی نہیں پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکومتی ذمہ دار ادارے اور عمال بھی شریک ہیں جو اپنے ذاتی و مالی فائدے کیلئے اس دھندے میں مساویانہ شریک ہیں۔ پاکستان میں ہیومن اسمگلنگ کے کنٹرول کیلئے کوسٹ گارڈز، نیول و مرچنٹ نیوی، ایئرپورٹ سکیورٹی، سول ایوی ایشن کے علاوہ ملک کے اندرون پولیس، بارڈر سیکیورٹی فورسز، ایف آئی اے حتیٰ کہ دیگر ایجنسیز کے فرائض میں یہ شامل ہے لیکن افسوس کہ ہم اپنے ہوش سنبھالنے کی عمر سے لے کر آج تک اسنانی اسمگلنگ کے واقعات کو بڑھتے ہوئے ہی دیکھ رہے ہیں۔ معاملہ محض پاکستان تک ہی نہیں یہ دھندہ دنیا کے دیگر ممالک تک اسی طرح پھیلا ہوا ہے۔ یہی نہیں کہ ان اسمگلروں کی جڑیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں بلکہ انہوں نے اپنا مضبوط نیٹ ورک بنایا ہوا ہے اورمتعلقہ ذمہ داروں و اداروں سے بھی ان کا گٹھ جوڑ ہے۔ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کی بیخ کنی کے ذمہ دار ااروں و ایجنسیوں کے علاوہ عالمی ایجنسی بھی موجود ہے لیکن یہ عفریت روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
بحیرۂ روم میں ہونیوالے حالیہ حادثے کے حوالے سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ 2014ء سے اب تک ہیومن اسمگلنگ کے حادثات میں 20 ہزار سے زائد لوگ اجل کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ بالخصوص یونان کی کوسٹ گارڈ اور حکومت کی اس حوالے سے بے حسی، عدم تشویش اور انسانی جانوں کے ضیاع کے احساس کے برعکس ان کیلئے یہ ایک معمول ہے اور ان کی سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے۔ یہی وطیرہ حالیہ سانحہ پر بھی دیکھنے میں آیا۔ سانحہ میں سروائیو کرنے والے ایک مصری شاہد کے مطابق لوگ ڈوب رہے تھے اور یونانی کوسٹ گارڈ انہیں بچانے کی کوشش کے برعکس ساحل پر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ عالمی میڈیا نے بھی اس ایشو پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور سخت تنقید کی۔ افسوس کہ یونانی حکومت نے تمام تر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کسی بھی ذمہ داری سے انکار کر دیا۔ سچ یہ ہے کہ بحیرۂ روم میں انسان ہی نہیں انسانیت بھی ڈوب گئی۔ 78 لوگ مدد کیلئے پکارتے رہے اور بالآخر سمندر بُرد ہو گئے، کوسٹ گارڈ تماشہ دیکھتے رہے، ظلم و انسانی تحقیر کی بدترین مثال اور کیا ہوگی؟
ظلم کی انتہاء تو ڈوبنے والی کشتی میں موجود پاکستانیوں کیساتھ ٹریفیکرز نے بھی کر دی تھی 400 پاکستانیوں کو کشتی کے سب سے نچلے حصے میں ٹھونسا گیا۔ (واضح رہے کہ مذکورہ کشتی مچھلی پکڑنے والی تھی مسافروں کیلئے نہیں)، خواتین پر تشدد بھی کیا گیا۔ پیاس کی شدت سے چھ افراد کشتی ڈوبنے سے پہلے ہی مرچکے تھے۔ واقعات کے مطابق کشتی کا انجن فیل ہو چکا تھا اور کشتی ڈُوب رہی تھی اور ٹریفکرز کسی سے بھی کوئی رابطہ نہیں کر رہے تھے نہ ہی مسافروں کے بچائو کیلئے کوئی حفاظتی اقدامات تھے۔
ہم عرض کر چکے ہیں کہ مذکورہ کشتی میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی، اکثریت پنجاب اور آزاد کشمیر سے تھی۔ بیشتر لوگوں نے اسمگلروں کے ایجنٹس کو 20 سے 30 لاکھ روپے تک کی رقم اپنے گھر، زمینیں و جائیداد بیچ کر یا قرض لے کر ادا کی تھی، اس حادثے سے وہ لوگ تو متاثر ہوئے کئی خاندان بھی تباہ ہو گئے۔ بہت سے متاثرین کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح کلیو نہیں۔ خبروں کے مطابق 100 پاکستانیوں کے متاثر یا ہلاک ہونے کے خدشات ہیں جبکہ باقی کے حوالے سے کوئی خبر نہیں۔ پاکستانی و آزاد کشمیر کی حکومتوں نے یوم سیاہ منایا، قومی پرچم سرنگوں ہوئے، تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی، چند اسمگلروں اور ایجنٹوں کی گرفتاری بھی کی گئی لیکن کیا ایف آئی اے یا دوسری ایجسنیز اس مافیا کی جڑوں تک پہنچ سکیں گی، کیا دیگر ممالک میں موجود ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں پر ان کا ہاتھ پڑ سکے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ کیا اپنے مفادات و اقتدار کے بھنور میں پھنسے ہوئے حکومتی و سیاسی و ریاستی مقتدرین یامفاد و لالچ کی دلدل میں پھنسے ہوئے سرکاری و تحقیقاتی عمال اس لعنت کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں یا یہ محض ایک لیپا پوتی ہے کہ حادثے کی سنگینی و کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ ویسے بھی اس وقت ساری سیاسی اشرافیہ کے پیش نظر متوقع پیش آمد انتخابات اس حد تک ترجیح بن چکے ہیں کہ اقتداری ٹولے میں تقسیم و تفریق کا آغاز ہوچکا ہے اور حالیہ اتحادی ٹولے میں دراڑیں پڑر ہی ہیں۔ ہماری نظر میں تو عمران مخالفت میں متحد ہونیوالا بھان متی کا کنبہ آپس میں ہی برسرپیکار ہو کر ہوس اقتدار کی سیاسی دشمنی میں مصروف ہو جائیگا اور یونان میں ہونیوالے سانحہ کا معاملہ اسی طرح سرد خانے میں چلا جائیگا جس طرح عوام کی مشکلات و بہتری کے معاملات کڑھی کے اُبال کی طرح اُٹھتے ہیں اور پھر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ کتنے باپ اپنے سہاروں سے محروم ہو گئے، کتنے بیٹوں کے سر سے باپ کا سایہ ختم ہو گیا اور کتنی سہاگنیں بیوہ ہوگئیں کسی کو یاد نہیں رہے گا۔ ہمارے معاشرے بلکہ قوم کا یہی المیہ ہے کہ کسی بھی مشکل، حادثے یا ناگہانی کا فوری ردعمل ہوتا ہے اور جلد ہی اسے بھلا دیا جاتا ہے۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز المیوں اور آزمائشوں کا گہوارہ بن چکا ہے اور اس سے نکلنے کیلئے کوئی مسیحا نظر نہیں آتا۔
٭٭٭