”معذور جماعتیں ”

0
45
ماجد جرال
ماجد جرال

ایک بادشاہ نے ایک دفعہ بھرے دربار میں اعلان کیا کہ میرا ایک سوال ہے کہ میرے ہاتھ کی ہتھیلیوں پر بال کیوں نہیں ہیں؟ دو کوئی مجھے اس کا معقول جواب دے گا اس کو میں انعام دوں گا مگر جو کوئی معقول جواب نہ دے سکا تو اس کا سر قلم کر دوں گا، بادشاہ کی جانب سے سخت سزا کا اعلان سننے کے بعد کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اٹھ کر اس کا جواب دے۔کچھ دیر کے بعد ایک معذور شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ بادشاہ سلامت میں آپ کے سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں، بادشاہ نے کہا کہ ایک بار سوچ لو کیونکہ جواب نہ دے سکے تو تم اپنی جان سے جائو گے، اس شخص نے کہا کہ میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوں، بادشاہ نے کہا کہ ٹھیک ہے میرے سوال کا جواب دو کہ میری ہتھیلیوں پر بال کیوں نہیں ہیں۔اس شخص نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت آپ بہت سخی ہیں، اپنی سخاوت کے باعث ان ہاتھوں سے اتنا مال بانٹتے ہیں کہ آپ کی ہتھیلیوں کے بال ختم ہو چکے ہیں۔بادشاہ نے پھر سوال کیا کہ اچھا یہ بتائو کہ تمہاری ہتھیلیوں پہ بال کیوں نہیں ہے۔اس نے جواب دیا کہ آپ سے لے لے کر میرے ہاتھوں کے بال گھس گئے ہیں، بادشاہ نے کہا کہ اچھا یہ بتا کہ دربار میں موجود باقی لوگوں کی ہتھیلیوں کے بال کیوں نہیں ہیں تو اس شخص نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت آپ جب بھی سخاوت کرتے ہیں تو مجھے مال دیتے ہیں، ان کے ہاتھ کچھ نہیں اتا تو افسوس کے سبب ہاتھ رگڑ رگڑ کر ان کی ہتھیلیوں کے بال گھس چکے ہیں۔بادشاہ اس کا جواب سن کر خوش ہوا اور اسے کافی انعام دیا۔پاکستان کی صورتحال دیکھی جائے تو اس میں یہ بادشاہ پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ ہے، ہر بار اسٹیبلشمنٹ اپنے دربار میں اسی طرح کا کوئی سوال اٹھاتی ہے، کوئی ایک معذور جماعت اُٹھ کر اس کا جواب دیتی ہے اور اس طرح انعام میں حکومت پا لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایسی جماعتیں پسند ہیں جو معذور ہوں، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں کچھ نہ کچھ عرصے کے بعد حکومتی ایوانوں میں آنے کے لیے معذوری کا ڈرامہ کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ہمدردی جیتنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر ان معذور جماعتوں سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں کہ یہ عوام کا بھلا کریں گی اور عوامی فلاح کے منصوبے اپنی منشا اور مرضی کے مطابق چلائیں گے۔ان کو تو بادشاہ سلامت یعنی اسٹیبلشمنٹ کو یہی جواب دینا ہے کہ جناب آپ کے سخاوت کا یہی عالم ہے کہ آپ کی ذرا نوازی کے سبب ہم حکومت ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور حکومتی نمائندے ہونے کا جو نقاب منہ پر سجاتے ہیں، اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہونے کا عام عوام کو کس طرح علم ہو سکتا ہے، بادشاہ سلامت آپ زندہ باد۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here