بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یو این جنرل اسمبلی کے سیشن میں شرکت کیلئے امریکا آنا ایک پراسرار دورے سے ہی منسوب کیا جاسکتا ہے، اُنکا طیارہ ایئر انڈیا ون جس پر سوار ہوکر وہ پنسلوانیا پہنچے تھے خود روز اول سے ایک معما بنا ہوا ہے، معلوم ہوا ہے کہ اُس طیارے کی انجن کی جانچ پڑتال کیلئے خود دو طیارے اُس کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں، اور ہر دوگھنٹے کے پرواز کے بعد اُسے ایندھن بھرنے کی ضرورت پیش آتی ہے یعنی دہلی سے پنسلوانیا تک کے چودہ گھنٹے کی فلائٹ میں اُسے سات مرتبہ لینڈنگ کرکے پرزہ جات کی دیکھ بال اور ایندھن کی اشد ضرورت کو پورا کرنا لازمی ہوتا ہے، مودی کی ایسے طیارے میں بیٹھ کر ہوا نکل گئی تھی اور وہ گھبراہٹ میں ہر لمحہ ایروناٹیکل انجینئر سے پوچھ رہے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہے نا۔ بھارت کی بھوکی جنتا جس کی ایک چوتھائی آبادی روزانہ ایک وقت کے کھانے سے محروم رہتی ہے حیران تھی کہ آخر مودی اُنکے خون پسینہ کی کمائی سے اپنے ذاتی استعمال کیلئے ایک طیارہ کیوں خرید لیا، کیا وہ یہ دِن بھول گئے ہیں کہ چند سال قبل تک وہ ریلوے اسٹیشن پر چائے گرم فروخت کیا کرتے تھے۔بہرکیف ایئر انڈیا ون کا پنسلوانیامیں لینڈنگ کرنا بذات خود ایک بڑا راز ہے، ایک ایسا راز ہے جس کے بارے میں ساؤتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مودی نے ایسا صرف اِس لئے کیا کہ سکھوں اور کشمیریوں کے غیظ و غضب احتجاج سے بچ سکیں حتیٰ کہ آخری لمحہ تک لوگوں کو اِس بات کا علم نہ تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کہاں اُتر رہے ہیں، ایک بھارتی اخبار نے یہ سرخی لگائی کہ مودی کے استقبال کیلئے ہزاروں بھارتی تشریف لائے تھے، لیکن دوسرے اخبار نے جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا اور لکھا کہ استقبال کیلئے آنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی،امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات بھی ایک مضحکہ خیز امر سے کم نہیں،مودی صدر بائیڈن کو دیکھتے ہی رو پڑے تھے اور داد و فریاد شروع کردی تھی،اُن کا کہنا تھا کہ ”چڑیا تو ہمارے ہاتھ سے بھاگ گئی” بنگلہ دیش جسے ہم نے پال پوس کرجوان کیا تھا ، اُسے چلنا اور تیرنا سکھایا تھا، وہ ہمارا ایک قیمتی اثاثہ تھا، ہمارا گاہک تھا، ہم اُسے پیاز آلو سے لے کر بجلی تک فروخت کیا کرتے تھے ، ہم اُسے حکم دیا کرتے تھے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کس قرارداد کو ووٹ دینا ہے اور کسے رد کر دینا ہے، ہم نے مسلمان بنگالی کو ہندو بنانے کی اسکیم بھی شروع کردی تھی،. ہم نے ڈھاکا میں ہندو کلچر سینٹر بھی قائم کردیا تھاتاکہ بنگلہ دیشی ہندو دھرم سے آگاہ ہوسکیں، ا یودھیا میں ہم نے مسجد کو مسمار کرکے جو مندر بنائی ہے وہ اُس کی مدمت کرنے کے بجائے حمایت کریں لیکن ایک گھنٹے میں وہ پچاس سال کی محنت ضائع ہوگئی اور بنگالیوں نے بغاوت کردی، ہم تو تباہ و برباد ہوگئے، اِسی لئے تو ہم نے اپنی بارڈر فوج کو حکم دے دیا ہے کہ اگر کوئی بنگالی سرحد پار کرکے بھارت میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اُسے فورا” گولی مار دو.آپ کی حکومت بھی یہی کرتی ہے نا؟”یہاں پر صدر بائیڈن نے مداخلت کی اور کہا کہ ” نہیں پنڈت جی! ہماری حکومت تو ہمارے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے کو خوش آمدید کہتی ہے، اُنہیں بس پر بیٹھاکر ٹیکساس سے نیویارک یا شکاگو روانہ کر دیتی ہے، وہاں اُن کے کھانے اور رہنے کا انتظام ہوتا ہے، اُن پر کئے جانے والے اخراجات ایک سال میں پانچ بلین ڈالر سے زائد ہوتے ہیں” سر جی ! و ہ تو آپ اِس لئے کرتے ہیں کہ آپ کے ملک میں سیاہ فام اقلیت کے بجائے سفید فام غلام کی کھپ آتی رہے ، اور آپ کی اِکانومی اِسی طرح چلتی رہے” مودی نے جواب دیاکہ ”مودی تم امریکی نظام حیات پر سخت تنقید کر رہے ہو تمہیں علم نہیں کہ ہمارے ملک میں روز اول سے مائیگرنٹس آتے رہے ہیں، جب گورے نہیں ملے تو ہم نے افریقیوں کو جنگل سے پکڑ کر یہاں لے آیا لیکن اب یہاں کافی تعداد میں مائیگرنٹس آرہے ہیں، ہم نے بھارتیوں کو بھی H1B-2 ویزا دے کر اپنی نیشنل کرکٹ ٹیم میں شامل کرلیا ہے. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں اِن ساری باتوںکا علم نہیں” صدر بائیڈن نے کہا وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر جو بائیڈن اور اُن کی بیگم کو مسکا مارنے کیلئے بھارت سے قیمتی تحفہ بھی لے کر آئے تھے ،اُن کا تحفہ بھارت کی غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کررہا تھا جس طرح بھارت میں دربان یا گھریلو نوکر صاحب کو خوش کرنے کیلئے اپنے گاؤں سے آم کی پیٹی لے کر آتا ہے ، نریندر موددی نے ٹھیک اُسی روایات کو دہرایا تھا،اُنکے تحفے میں چاندی کی بنی ہوئی ایک انجن ماڈل ہے ، جس پر”انڈین ریلویز ” اور اُسی کے ساتھ ”دہلی سے ڈیلاویئر” کُنداہوا ہے جبکہ فرسٹ لیڈی جِل بائیڈن کیلئے نریندر مودی ایک کشمیری شال بطور تحفہ لے کر آئے تھے،لیکن بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کی جو بائیڈن سے ملاقات بھی ضائع نہیں گئی، وہاں کی سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ سے امریکا کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے تھے اور امریکا نے بنگلہ دیش پر متعدد پابندیاں بھی عائد کر دیں تھیں، لہٰذا جب محمد یونس امریکی صدر بائیڈن سے ملے تو اُنہوں نے خوشی سے محمد یونس کے گلے کو اپنے باہوں میں دبوچ لیا اور اِسی کے ساتھ اُنہوں نے بنگلہ دیش کو مکمل امریکی تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔