فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
42

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! ہر انسان پر یہ لازم ہے کہ جب وہ دوسر سے ملے تو اسے اسلام کہے، جب وہ اسے مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرے جب اسے چھینک آئے تو اس کا جواب دے، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عبادت کو جائے، جب وہ مر جائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو، جب وہ قسم دلائے تو اس کی قسم کو پورا کرے، جب وہ نصیحت کا خواستگار ہو تو اسے نصیحت کرے۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کی پیٹھ کی حفاظت کرے یعنی اس کی نوعیت نہ کرے اور اس کے لئے وُھی کچھ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ہر وہ چیز جیسے وہ اپنے لئے ناپسند کرتا ہے اس کے لئے بھی نہ پسند سمجھے۔ یہ تمام احکام احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضورۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تجھ پر مسلمانوں کے چار حق ہیں ان کے نیک کی امداد کر، برے کے لئے طلب مغفرت کر، ان میں سے جانے والے(مرنے والے) کے لئے دعا مانگ اور ان میں سے توبہ کرنے والے کے ساتھ محبت رکھ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما اس فرمان الٰہی ”وہ آپس میں رحم کرنے والے ہیں” کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان کے نیک بروں کے لئے، برے نیکوں کے لئے دعا کریت ہیں، جب کوئی بدکار، امت محمدۖ کے نیک مرد کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے: اے اللہ! تو نے اسے جو بھلائی مرحمت فرمائی ہے اس میں برکت دے، اسے ثابت قدم رکھ اور ہمیں اس کی برکتوں سے نواز، اور جب کوئی نیک کسی بدکار کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے: اے اللہ اسے ہدایت دے، اس کی توبہ قبول فرما اور اس کی لغزشوں کو معاف فرما دے۔ مسلمان پر مسلمان کا یہ بھی حق ہے کہ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے دوسرے کے لئے بھی وہی پسند کرے، اور جو چیز اپنے لئے بری سمجھتا ہے دوسرے کے لئے بھی اسے برا سمجھے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے اور باہم شفقت کرنے میں مسلمانوں کی مثال ایسے جسم کی ہے کہ جب جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو تمام جسم اس کے احساس اور بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ حضورۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کہ مسلمان مسلمان کے لئے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے۔ مسلمان کے حقوق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زبان اور کسی فعل سے دوسرے مسلمان کو دکھ نہ پہنچائے۔ فرمان نبوی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ حضورۖ نے فرمایا کہ جانتے ہو مسلمان کون ہے؟ صحابہ کرام علیھم الرّضوان نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کی: مئومن کون ہے”؟ آپ نے فرمایا: جس نے اپنی طرف سے مسلمانوں کو ان کے مال اور جانوں میں بے خوف کردیا۔ پوچھا گی کہ مہاجر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس نے برائیوں کو چھوڑ دیا اور ان سے کنارہ کشی رہا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تو دل سے اللہ کو تسلیم کرے اور تیرے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جہنّمیوں پر خارش مسلط کر دی جائے گی۔ جو تیزی سے ان کا گوشت ختم کرکے ان کی ہڈیاں نمایاں کر دے گی۔ تب ہذا آئے گی اے فلاں! کیاں یہ خارش تمہیں تکلیف دیتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں! آواز آئے گی، یہ مسلمان کو تکلیف دینے کا تیرے لئے بدلہ ہے فرمان نبوی علیہ الصّلواة والسّلام ہے: میں نے ایک ایسے شخص کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا ہے جس نے مسلمانوں کے راستہ سے ایک ایسے درخت کو کاٹ دیا تھ جو انہیں تکلیف دیا کرتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہۖ! مجھے ایسا عمل بتلائیے۔ جس سے میں نفع حاصل کروں۔ آپ نے فرمایا: مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کیا کرو۔ فرمان نبوی علیہ الصّلواة والسّلام ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف ایسا اشارہ کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ حضورۖ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے۔ حضرت ربیع بن خیثم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں اگر تیرا مخاطب مئومن ہے تو اسے ایذاء نہ دے اور اگر جاہل ہے تو اس کی جہالت میں نہ پڑو اور بندے پر مسلمان کا یہ بھی حق ہے کہ وہ ہر مسلمان سے تواضع وعاجزی سے پیش آئے۔ اور تکبر سے پیش نہ آئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر اترانے والے متکبر کو ناپسند کرتا ہے فرمان نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی نازل فرمائے ہے کہ تم تواضع کرو اور ایک دوسرے پر فخر وتکبر نہ کرو۔ اگر کوئی دوسرا تم سے تکبر سے پیش آئے تو برداشت کرو۔ حقوق العباد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ لوگوں کی باتیں ایک دوسرے کو نہ بتلائی جائیں۔ اور کسی کی بات سن کر کسی دوسرے کو نہ سنائی جائے۔ فرمان نبوی علیہ الصّلٰوة والسّلام ہے کہ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ خلیل بن احمد رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو تیرے سامنے دوسرے کی چغلیاں کھاتا ہے وہ تیری چغلیاں دوسروں کے سامنے کھاتا ہو گا۔ اور تجھے دوسرے لوگوں کی باتیں بناتا ہے وہ تیری باتیں دوسرے لوگوں کو بتاتا ہوگا ایک حق یہ بھی ہے کہ غصے کی حالت میں اپنے کسی جاننے والے سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق نہ کرے۔ حقوق العباد کا باب بہت طویل ہے بہرحال مسلمانوں کے اندر اتفاق و اتحاد بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here