عوامی قوت عمران کی طاقت

0
141
جاوید رانا

گزشتہ ہفتہ پاکستانی سیاست کے ناطے جس انتشار اور انسانیت سوزی کے مظاہر سے گزرا ہے، اس کی نظیر وطن عزیز میں کم ہی ملتی ہے ایک جانب بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں، انتہائی عروج پر رہیں اور عوام کے جان و مال اور سکون کو تباہ کرتی رہیں تو دوسری جانب سیاسی نفرت انگیزی کا بدترین کھیل کھیلا جاتا رہا۔ عمران خان کے پختہ عزم و ارادے سے خوفزدہ قوتوں کا عمران مخالف کھیل تو گزشتہ اپریل سے ہی جاری ہے اور عوامی حمایت سے محروم اسلام آباد تک محدود امپورٹڈ حکومت آلۂ کار بن کر ہر وہ ناپسندیدہ پروپیگنڈہ اپنا رہی ہے جس سے عمران خان اور پی ٹی آئی کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی مقبولیت کو زک پہنچائی جا سکے لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق رانا ثناء اللہ جیسے اتحادی شیطانوں کے عمران مخالف انسان دشمن ہتھکنڈوں اور سازشی اقدامات سے خود 13 جماعتی ٹولے سے عوامی نفرت بڑھ رہی ہے اور کپتان اور اس کے نظرئیے کی عوام میں مقبولیت، ہمدردی اور سپورٹ انتہائوں کو چُھو رہی ہے اس کا واضح ثبوت کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 245 میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی بے مثال کامیابی ہے جس نے تیرہ جماعتی ٹولے کے مشترکہ امیدوار کو دھول چٹا دی ہے اور ایم کیو ایم کا گڑھ کہلانے والے اس حلقہ سے متحدہ کا مشترکہ امیدوار بدترین شکست سے دوچار ہوا ہے۔ حکومتی اتحاد کی یہ شکست اور اس سے قبل پنجاب میں بدترین حشر اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ تمام تر اداروں اور مقتدرین کی سپورٹ کے باوجود اقتدار پر قابض امپورٹڈ حکومت عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے اپنی حرکات و سازشوں پر اُتر آئی ہے جن سے نہ صرف عوام میں اس سے نفرت بڑھ گئی ہے بلکہ ملک کی سیاست، ریاست، آئین و قانون کو بھی خطرات و نقصان کا احتمال ہے۔
ہم نے یہ جملہ کہ حکمرانوں کی حرکات کے نتیجے میں نقصان کا احتمال ہے بلا سبب ہی نہیں کہابلکہ ان حالات کے باعث ہی لکھا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں حکومتی جبر و اسبتداد، عمران اور پی ٹی آئی کے لوگوں کیخلاف غیر آئینی و قانونی، غیر انسانی اقدامات، گرفتاریوں، ایف آئی آڑز کیساتھ میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کچھ تفصیلات تو ہم گزشتہ کالموں میں دے چکے ہیں لیکن ہفتہ رفتہ جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی بھی مہذب معاشرے کیلئے ایک ناسور ہی ہو سکتا ہے۔ اے آر وائی پر فوج مخالف ریمارکس پر گرفتار شہباز گُل کیساتھ حراست میں جو انسانیت سوز اور مجرمانہ فعل کئے گئے اس کی تفصیل تو آپ جان ہی چکے ہیں اس کے رد عمل کے طور پر اور کپتان کی کال پر جس طرح عوام کا سمندر اُمڈ کر آیا اس پر حکمرانوں کے نہ صرف حواس باختہ ہوئے بلکہ ان کی عقل پر بھی پردے پڑ گئے۔ بد حواسی اس وقت بڑھ گئی جب دوسرے دن ہی کپتان نے لیاقت باغ میں تاریخی جلسہ کیا اور اپنے خطاب میں حکومتی ٹولے اور اس کے سہولت کاروں کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔
کپتان کے خطاب اور شہباز گِل کے بیان کو خان کی ہدایت کا مفروضہ بنا کر نہ صرف عمران کیخلاف پرچے کاٹے گئے بلکہ گرفتاری کی منصوبہ بندی کی گئی۔ خبر کا آنا تھا کہ بنی گالہ پر پی ٹی آئی کی قیادت، کارکنوں، حمایت یافتگان و پرستاروں نے کپتان کی حفاظت کا حصار قائم کر دیا۔ رات کے پچھلے پہر ہزاروں کی تعداد میں جوان، بزرگ، مرد و خواتین نہ صڑف خود بلکہ اپنی فیملیز حتیٰ کہ شیر خوار بچوں کیساتھ عمران خان کیلئے موجود تھے۔ ایک دس سالہ بچی نے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم اپنے عمران کی حفاظت کیلئے آئے ہیں۔
عمران سے محبت کا اندازہ متذکرہ بچی کے جملے سے بخوبی واضح ہوتا ہے ہم گزشتہ شب ایک دعوت میں شریک تھے۔ پاکستان کے حالات پر گفتگو میں ہم نے سوال کیا کہ آپ میں کوئی ایسا ہے جو عمران خان اور اس کے فلسفے سے متفق نہیں ہے تو جواب صفر میں تھا۔ عمران سے محبت اور اس کی جدوجہد میں پاکستانی عوام کا جذبہ جن حدوں پر ہے ہماری یادداشت و معلومات کے مطابق قائداعظم کے علاوہ آج تک کسی رہنماء کو بشمول بھٹو شہید اس قدر مقبولیت اور حمایت نصیب نہیں ہوئی۔ عمران کیخلاف کوئی بھی حکومتی یاریاستی اقدام ملک بھر میں آگ لگانے کے مترادف ہوگا۔ عمران خان کی گرفتاری کا کوئی بھی اقدام نظام کو اُلٹ دینے کا واضح سبب ہوگا کیونکہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں عوام کی طاقت کے آگے ہر طاقت بے حیثیت ہو جاتی ہے، اس کی تازہ ترین مثال سری لنکا کی دی جا سکتی ہے۔ اندازہ کر لیں کہ دو کروڑ آبادی کے ملک میں عوامی تحریک سے جب حکومت پلٹ ہو گئی تو 22 کروڑ کے ملک میں اکثریت کی حمایت کے حامل خان کیخلاف کوئی بھی اقدام کن نتائج کا سبب ہو سکتا ہے۔ زرداری کا عمران کو گرفتار نہ کرنے کا جواز غلط نہیں ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے 12 کلومیٹر کے رقبے پر مسلط امپورٹڈ حکومت”ان عقل کے اندھوں کو اُلٹا نظر آتا ہے” کی عملی تصویربن چکی ہے۔ عمران کی عوامی مقبولیت و حمایت سے اور ان کی مکمل ناکامیاں ان کی کانپیں ٹانگنے (بقول بلاول بھٹو) کا سبب تو بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حکمران اور ان کے سہولت کار بغض عمرانیہ میں طرح طرح کے طریقے اور اقدامات بروئے کار لانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ شاید وہ یہ فراموش کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام آباد کے ملحق علاقوں بلکہ صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکمرانی ہے یہی نہیں آزاد کشمیر اور جی بی بھی خان کی جماعت کے پاس ہے اور ملک بھر کی عوامی حمایت بھی کپتان کی طاقت ہے۔ ان حالات میں اگر حکومت نے کسی بھی ایڈونچر کی کوشش کی تو عوامی رد عمل اس قدر شدید ہوگا کہ اس کا مقابلہ کسی کے بس میں نہیں رہے گا اور اگر سیاسی تصادم ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں سیاسی بساط لپیٹے جانے کے سواء کوئی راستہ نہ ہوگا کیونکہ فوج کبھی بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں ُر گولی چلانے یا کسی بھی ایسے اقدام پر تیار نہیں ہوگی جو عوام کیخلاف ہو تو پھر واحد راستہ کیا ہوگا پاکستان کی تاریخ اس حوالے سے بھری پڑی ہے۔
بعض مبصرین کی رائے تو یہ ہے کہ اتحادی حکومت سیاست کی بڑھتی ہوئی آگ کو بجھانے کی تدبیر کرنے کے برعکس صرف اپنی مدت کی تکمیل کیلئے کچھ اپنے لوگوں اور کچھ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر عمل پیرا ہے اور اس کیلئے وہ آئین، قانون و اخلاقیات سے مبّرا ہو کر ایسے اقدامات کر رہی ہے جو نہ خود اس کیلئے بہتر ہیں بلکہ سسٹم کی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ بے بنیاد مقدمے ، میڈیا کی بندش، صحافیوں پر ظلم و گرفتاریوں کا عمل (جمیل فاروقی کی گرفتاری اور بیہمانہ تشدد) کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ہماری ان سطور کے تحریر کئے جانے تک سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود ابھی تک اے آر وائی کی بندش اور لائسنس کی معطلی کو بحال نہیں کیا گیا ہے۔ ادھر کپتان کی گرفتاری اور توشہ خانہ کیس میں نا اہلی کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ نازک تر ملکی حالات کو نازک ترین بنانے میں کیا مصلحت ہے کیا غرض ہے۔ اتحادی حکومت تو خود ہی لڑکھڑاہٹ سے دوچار ہے تو وہ کون سے عوامل ہیں جن کے ایماء پر ظلم و ستم جاری و ساری ہے۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ حالات کو مزید خراب کرنے کا منصوبہ زیر عمل ہے لیکن عوام کی قوت کے آگے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here