پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں اتنی بڑی عوامی سطح پر پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ اور تیرا میرا رشتہ کیا: لا الہ الا اللہ جیسے نعرے پہلی دفعہ عمران خان کے عوامی اجتماعات میں بلند ہوئے ہیں۔ کسی بڑے مقبول لیڈر یا کسی بڑی عوامی تحریک میں پاکستان کا مطلب کیا والا نعرہ قومی سطح پر اتنی مقبولیت کے ساتھ کبھی نہیں لگایا گیا۔ آخری دفعہ یہ نعرہ علامہ خادم حسین رضوی کی تحریکِ لبیک میں بلند ہوا۔ مگر ان کی ریلیاں بھی تمام مسالک، تمام مکاتبِ فکر یہاں تک کہ اس ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی اس طرح نہیں کرتی تھیں۔ لیکن تحریکِ لبیک کے نعروں میں جوش و ولولہ ایک غالب حقیقت تھی۔ تحریکِ لبیک سے پہلے اس نعرے کے تمام تر حقوقِ ملکیت جماعت اسلامی نے لے رکھے تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ اپنے عروج میں یہ نعرہ یونیورسٹیوں، کالجوں اور تعلیمی اداروں میں لگاتی تھی۔ جمعیت کے نوجوان بھی اس نعرے کو اتنا زیادہ نہیں لگاتے تھے بلکہ ان کا مخصوص نعرہ انقلاب، انقلاب: اسلامی انقلاب تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مقابلے میں کیمونسٹ انقلاب کی علمبردار تنظیمیں سرخ انقلاب کا نعرہ بلند کیا کرتی تھیں۔ جماعتِ اسلامی کے جلسوں اور اجتماعات میں مشہور شاعر اصغر سودائی کی نظم اس دعوے کے ساتھ پڑھی جاتی تھی کہ یہ تحریکِ پاکستان کے دوران لکھی گئی تھی۔ اصغر سودائی چونکہ سیالکوٹ میں جماعتِ اسلامی کے ہمدردوں میں شامل تھے اس لئے جماعتِ اسلامی نے اسے ہمیشہ اپنی تحریکِ پاکستان سے وابستگی کے لئے ایک دلیل کے طور پر پیش کیا۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل طبقے نے پچھتر سال سے ایک بحث چھیڑے رکھی کہ ایسا کوئی نعرہ تحریکِ پاکستان کے دوران نہیں لگایا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ علامہ محمد اسد کے وہ مضامین جو 1946 میں ان کے رسالے عرفات میں چھپے جن میں پاکستان کے نظریے کے بارے میں گفتگو کی گئی تھی ان کا عنوان ہی یہ تھا یعنی پاکستان کا مطلب کیا اور مضمون کے آخر میں وہ لا الہ الا اللہ لکھتے تھے۔ قائد اعظم کی تقریروں میں ایک اسلامی مملکت کے خواب اور شریعہ قوانین کے نفاذ کی بازگشت کے باوجود سیکولر طبقہ یہی کہتا رہا کہ دکھائو کہ تحریکِ پاکستان میں عوامی سطح پر کبھی پاکستان کا مطلب کیا والا نعرہ بلند ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جتنی بھی عوامی تحریکیں چلیں یا جتنی بھی سیاسی پارٹیاں عوام میں مقبول ہو کر مسندِ اقتدار تک پہنچیں، کہیں بھی اور کبھی بھی اس نعرے کی گونج اس قدر زور شور سے نظر نہیں آئی۔ سب سے پہلی تحریک 1953 کی تھی جو قادیانیوں کے خلاف علما نے شروع کی تھی۔ چونکہ یہ تحریک خالصتا ختمِ نبوت کے لئے تھی اس لئے اس میں نفاذ شریعت اور نظریہ پاکستان کی بحث بالکل نہ چھیڑی گئی۔ جبکہ حکومتی سطح پر جسٹس منیر نے اپنی انکوائری رپورٹ میں پاکستان کے اسلامی تشخص کی نفی کرنے کے لئے قائد اعظم کے فرمودات میں تحریف کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نام کا کوئی نعرہ یا تصور تحریکِ پاکستان میں موجود ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد دوسری بڑی تحریک ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف تھی جو محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشنوں میں شکست سے شروع ہوئی۔ یہ تحریک بھی خالصتا مارشل لا کے خاتمے کے نعرے تک محدود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتِ اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام جیسی مذہبی جماعتوں نے بھی کبھی اس تحریک کا رخ نفاذِ شریعت کی طرف موڑنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اس تحریک میں تو کیمونسٹ، ملحد اور سیکولر پارٹیوں کا کٹر اسلامی جماعتوں کے ساتھ ایک حیرت انگیز ملاپ تھا۔ اسی تحریک کو آخر میں ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت نے اچک لیا۔ بھٹو کا اس نعرے سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا، بلکہ اس نے الٹا اسلام کی بجائے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر قوم اپنے پیچھے لگائی۔ 1970 کے الیکشنوں میں یہ نعرہ صرف اور صرف جماعتِ اسلامی تک محدود ہو کر رہ گیا۔ یوم شوکتِ اسلام منانے سے لے کر الیکشن ہارنے تک صرف جماعتِ اسلامی ہی اس نعرے کی امین رہی۔ جبکہ جمعیت العلمائے اسلام تو قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ مدغم تھی اور پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ اور دیگر جماعتیں بھی صرف جمہوری جدوجہد کے سفر پر تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی 1977 کی تحریک اپنے آخر میں نظامِ مصطفی کے خوش کن نعرے میں بدل دی گئی۔ اپنے آغاز میں یہ صرف الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک تھی، جس میں ہر طرح کے نظریات رکھنے والی پارٹیاں موجود تھیں، لیکن جمعیت العلمائے اسلام، جمعیت العلمائے پاکستان اور جماعتِ اسلامی کی سٹریٹ پاور اور بھٹو کے سوشلسٹ نظریات کا توڑ کرنے کے لئے نظامِ مصطفی کا نعرہ بلند ہوا۔ اس تحریک کے بعد جیسے ہی ضیا الحق نے اقتدار کی مسند سنبھالی تو پاکستان کا مطلب کیا اور نظامِ مصطفی والے دونوں نعرے اقتدار کی راہداریوں میں گم ہو گئے۔ اس کے بعد کے پینتالیس سال ایسے ہیں کہ ان میں جو بھی تحریک چلی وہ صرف آمریت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لئے تھی۔ نفاذِ شریعت کا نعرہ اب صرف لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز اور تحریکِ لبیک کے خادم حسین رضوی تک محدود ہو کر رہ گیا۔ گیارہ ستمبر 2001 کے بعد عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایسے تمام نعروں پر شدت پسندی کا لیبل لگا دیا گیا، بلکہ عام زندگی اور تعلیمی نصاب سے بھی جہاد اور قتال کے لفظ کو جیسے کھرچ دیا گیا تھا۔ اسلامی اصطلاحات کو عام زندگی سے نکالنے کے لئے بیس سال سخت محنت کی گئی۔ میراتھن دوڑوں سے لے کر انگریزی نصابِ تعلیم، مکمل مخلوط تعلیمی ادارے، اخلاق باختہ ڈرامے، وومن مارچ کے نام پر بے حیائی اور ہم جنس پرستی کا فروغ۔ اس ساری تگ و دو اور محنت سے ایک ایسی نوجوان نسل تیار کی گئی جو اپنے ماضی سے برگشتہ، مذہب سے دور اور مستقبل سے ناامید تھی۔ مذہبی طبقہ اور مذہبی جماعتیں ان کے نزدیک اجنبی بلکہ شجر ممنوعہ تھیں۔ وہ انہیں دقیانوسی، اولڈ فیشن اور خوفناک تصور کرتے تھے۔ خود مذہبی طبقے کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے اس نسل کی اصلاح کے لئے اپنے اندر کوئی لچک پیدا نہ کی بلکہ الٹا مزید سخت ہو گئے۔ اس ادھیڑ بن میں ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ یہ نسل مذہبی قیادت سے تو دور ہوئی مگر اس کے ساتھ ساتھ ملک کی پرانی سیاسی پارٹیوں کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے مایوس ہو گئی۔ ان کے نزدیک جماعتِ اسلامی، جمعیت العلما اور دیگر تو شدت پسند تھے جبکہ نون لیگ پیپلز پارٹی بددیانت اور کرپٹ۔ ایسے میں اس بے منزل، گم کردہ راہ نسل کو وقت کا بہائو عمران خان کی طرف کشاں کشاں لے گیا اور وہ اسے نجات دہندہ سمجھنے لگی۔ وہ اکثر اوقات عمران کی کارکردگی سے مایوس بھی ہوئے، مگر اس سے ان کی محبت میں کمی نہ آئی۔ ان کا غصہ اس وقت بڑھ گیا جب انہوں نے مذہبی سیاسی جماعتوں اور عمومی سیاسی پارٹیوں کو عمران خان کے خلاف متحد پایا۔ یہ ان کے لئے ناقابلِ یقین تھا۔ یہ دس اپریل کا دن تھا جس نے فیصلہ دے دیا۔ ایسے میں میرا اللہ اس عوامی سیلاب کو بھٹکنے سے بچانا چاہتا تھا۔ وہ اس سیلاب کا رخ کسی جانب موڑنا چاہتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ان کے محبوب لیڈر نے ان کی زبان پر وہ نعرہ جاری کر دیا جس سے پچھتر سال اسلام دشمن کیمونسٹ اور سیکولر نفرت کرتے تھے۔ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ، تیرا میرا رشتہ کیا، ایاک نعبدو ایاک نستعین۔ یہ ایسے استعارے ہیں جو کسی ہجوم کا راستہ متعین کیا کرتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان سے پہلے لاتعداد مذہبی جماعتیں اور رہنما تھے، لیکن علامہ اقبال کی بصیرت نے قائد اعظم کا انتخاب کیا تھا۔ وہ خطبہ الہ آباد میں ایک ایسے ہی لیڈر کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں لیڈر سے میری مراد ایک ایسا شخص ہے جسے اللہ نے روحانی اور مادی طور پر اسلام کی روح اور منزل سے آشنا کیا ہو اور جسے جدید دنیا کے بدلتے ہوئے نظریات کا بھی مکمل ادراک ہو۔ ایسے لیڈر بنائے نہیں جاتے بلکہ اللہ ایسے رہنمائوں کی عوام کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے۔ پچھتر سال پہلے اقبال کی بصیرت نے برصغیر کے مسلمانوں کو بظاہر ایک مغرب زدہ شخص کی قیادت میں پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ پر اکٹھا کیا تھا اور آج پچھتر سال بعد بھی بظاہر ایک مغرب زدہ شخص ہی لا الہ الا اللہ کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ باقی سب تو جمہوریت، آئین اور اقتدار کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔
٭٭٭