قارئین مولوی ہمارے معاشرے کا وہ پسا ہوا طبقہ ہے ۔ جسکا استحصال برصغیر اور بالاخص پاکستانیوں میں فرض منصبی سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ میں مولوی بننے سے کیوں گریزاں تھا؟ اور جس دن میں مولوی بنا اس دن میری والدہ کو افسوس کرنے کیلئے رشتہ دار عورتیں کیوں آئی تھیں ؟ اسلئے کہ پاکستان میں مولوی کو کمی یا شودر سے کم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی اعلی خاندان سے کیوں نہ ہوں ! آپکو مسلی موچی یا مراثی کہہ کر ہی پکارا جائیگا۔ جبکہ کمی میری نظر میں کوئی ذات نہیں ہے ۔ کمی کمیوں کی وجہ سے کمی ہوتے ہیں خواہ وہ خاندانی ہی کیوں نہ ہوں ۔ ویسے تو معیار فضیلت علم ،کردار، تقوی و جہاد ہے۔ ذات پات نہیں ہے یہ ہندوانہ تقریق ہے۔ مولوی کو ماں بہن کی گالی ہماری قوم کے گھسیپٹے افراد اپنا پیدائشی حق سمجھ کر دیتے ہیں۔ یہی لوگ لیڈر بنے ہوتے ہیں ۔ مولوی پر الزام لگ جائے تو اسکی کوئی نہیں سنتا سارے ایکا کرکے اسکے خلاف نبرد آزما ہو جاتے ہیں ۔ اگر کسی ایک مولوی کی کوئی حرکت سامنے آتی ہے تو اسے نہ فقط اچھالا جاتاہے ۔بلکہ ہر مولوی کو ایسا ہی مشہور کیا جاتا ہے ۔ایسی تشہیروں اور منفی بیان بازیوں کا ہدف یہ ہے کہ لوگ علما سے نفرت کریں تاکہ نقصان قوم کو ہو۔ اور تربیت قوم کرنے والے مربیوں کو اتنا بدنام کردو کہ گھروں میں قرآن و حدیث کی بجائے انڈین گانوں ۔ فلمیوں اور بے راہروی کی موویز چلیں ۔ اگر کوئی ڈاکٹر آپریشن غلط کردے تو علاج انجینئر سے نہیں کرایا جاتا ۔ اور کوئی آرکیٹیکٹ نقشہ غلط بنادے تو عمارت سی پی اے سے نہیں بنوائی جاتی ۔ عالم اگر نیک ہو تو کار انبیا ع کرتا ہے برا ہو تو بلعم باعور طرز کا کتا یا بہکے یہودیوں کی مانند گدھا ہوتا ہے ۔ تاہم بدکار ملا بہت ہی کم ہیں۔ گیہوں کی ساتھ گھن کو نہ پیسے اور سوشل میڈیا پر مولوی کے نام کو بدنام نہ کیجئے ۔ آپ کے بچے کے کان میں اذان سے لیکر تدفین میت تک مولوی کے بغیر گزارا نہیں ہے ۔ نکاح و طلاق ہو یا جنازہ و جمعہ جماعات ، رمضان سروسز ہوں یا محرم وصفر کی مجالس، اعیاد ہوں یا تعزیتی جلسے ، تعلیمات قرآن ہوں یا فاتحہ خوانیاں ، خوشی غمی ہو یا تبریک و تعزیت ہم مولوی کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ میں جنسی سکینڈلز پادریوں اور نندوں کے بنتے تھے مگر عیسائی سمجھ گئے کہ اس سے انکے مذہب کی توہین ہو رہی ہے ۔ تو اب یہ سلسلہ رک گیا ویسے ہی آج مولویوں پر خورد برد کے الزام لگ رہے ہیں ۔ تاہم مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں میں یہ فکر توہین علما اس وقت بام عروج پر ہے۔ میں ساری زندگی کردار کی بابت بہت سخت رہا ہوں اور رہونگا تاہم تشییع فاحشہ اور تہمت کے اتنا ہی خلاف ہوں۔ جتنا جرائم اور خورد برد کے خلاف ۔ مجرموں کو سزا دی جائے اور دادا گیروں کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ شرفا پر تہمیتئں لگاکر انہیں بد نام کریں، پگڑیاں اچھالیں اور سو چوہے کھا کر حج پر جائیں۔
٭٭٭