استحکام وطن، اولین ترجیح!!!

0
106
جاوید رانا

اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے وطن عزیز کے سنگین حالات کے پیش نظر اپنی معروضات پیش کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ موجودہ حالات کا حل عوامی انقلاب یعنی عوامی رائے کے مطابق انتخابات اور عوامی حمایت کے حامل رہنما / پارٹی کو نمائندگی و حکومت کی منتقلی میں ہے، دوسری صورت میں خونریزی کا راستہ نظر آتا ہے۔ قارئین تک ہمارا کالم 4 نومبر کو پہنچا لیکن ایک دن قبل یعنی 3 نومبر کو ہمارے خدشے نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ وزیر آبادمیں عوام کے محبوب ترین لیڈر اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد عمران خان پر قاتلانہ حملے کی واردات وقوع پذیر ہوئی۔ اس واردات کے نتیجے میں ایک کارکن کی شہادت اور کپتان سمیت 15 یا 16 رہنمائوں کی مضروبیت، عوامی رد عمل، وفاق اور پنجاب حکومت کے درمیان اختلافی پروپیگنڈے کیساتھ ریاستی اداروں کیخلاف متعدد شہروں اور انسٹالیشنز پر عوام کے غم و غصہ کا اظہار تو قارئین کے علم میں میڈیا کے ذریعے آ ہی چکا ہے لیکن اس دوران بعض ایسے اقدامات سامنے آئے جو قانونی اور انضباطی طریقہ کار کے برعکس تھے جن سے نہ صرف مروجہ کارروائی کو نظر نداز کیا جانا واضح تھا بلکہ حکومت اور ریاست کیخلاف عوام کا رد عمل شدید ہوا، ریاستی اشرافیہ کے جوابی رد عمل نے صورتحال کو شدید ابتری تک پہنچا دیا۔ لاہور، پنڈی و پشاور میں سرکاری و ریاستی تنصیبات و وسائل کو نقصان پہنچانے، جواباً حکومت و ریاست کے تحفظاتی اقدامات، شہروں میں ٹینکوں و عسکری صف آرائی سے حالات مزید ابتری کی نشاندہی کر رہے تھے۔ واقعہ کی سنگینی کے باوجود بعض ایسی حرکتیں بھی جان بوجھ کر کی گئیں جو عقل و قانونی نقطۂ نظر سے بعید تھیں۔ موقعہ سے گرفتار ملزم نوید کی تحقیقاتی رپورٹ محض آدھے گھنٹے میں میڈیا پر جاری کر دی گئی۔ رپورٹ میں واضح ہو رہا تھا کہ مبینہ مجرم اسکرپٹڈ بیان دے رہا ہے، تفتیشی افسر کی ملزم کے منہ میں جوابات کی لقمہ بازی بھی واضح نظر آرہی تھی۔ مدعا یہ لگتا تھا کہ قاتلانہ حملے کو مذہبی رنگ دے کر فیصلہ سازوں کے محرکات پر پردہ ڈالا جا سکے۔ اُدھر کپستان پر حملے کی ایف آئی آر ان کی کمپلینٹ کے مطابق درج کرنے سے اغماض برتا جا رہا تھا کہ کپتان نے اپنی شکایت میں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل کو نامزد کیا ہوا تھا۔ فوج کے ایکٹو جنرل کا نام ایف آئی آر میں شامل کرنے کیلئے ایس ایچ او سے لے کر آئی جی ایسا کرنے سے انکاری تھے حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ و وزیر داخلہ بھی کپتان کو یہی سمجھانے میں مصروف تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے افسر اعلیٰ کا نام شامل نہ کیا جائے۔ اس تمام صورتحال میں عمران خان اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا اور اس کا یہ مؤقف اس لئے ضروری تھا کہ کپتان اور پی ٹی آئی کا نظریہ قانون کا بلا تخصیص اطلاق ہے یعنی قانون طاقتور و کمزور کیلئے یکساں ہو۔ بہر حال وقوعہ کے پانچ روز بعد چیف جسٹس پاکستان کے احکامات پر ایف آئی آر درج تو کر لی گئی ہے اور مہر بند ایف آئی آرچیف جسٹس کے روح بہ روح کھولی جائیگی۔ پرنالاں بہائو کی طرف گرنے کے مصداق ایف آئی آر میں وہ نام اب بھی شامل نہیں ہیں۔
ہم سطور بالا میں نشاندہی کر چکے ہیں کہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کپتان سے مشاورت و ملاقاتوں میں میجر جنرل کے نام کو ایف آئی آر میں شامل کرنے کے حق میں نہیں تھے، چیف جسٹس کے حکم کے بعد مونس الٰہی نے کہا بھی تھا کہ ایف آئی آر عمران خان کی کمپلینٹ کے مطابق ہوگی لیکن ایں خیال است و محال است و جنوں۔ اس کی ایک وجہ تو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے آئینی و قانونی ضابطے ہو سکتے ہیں لیکن دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ چوہدریوں کا تعلق و تعاون جس قدر عمران کیساتھ ہے، مقتدرین سے بھی کچھ کم نہیں۔ اس صورتحال میں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اشتراک اقتدار میں مشکلات آسکتی ہیں لیکن ایک مبصر کے مطابق چوہدری جاٹ ہیں اور ایک پنجابی محاورہ ہے کہ جاٹ کے گھر اگر پڑوسی کی بھینس بھی آجائے تو وہ اسے واپس نہیں جانے دیتے تو حکومت کیسے جانے دینگے۔ بہر حال اب ایف آئی آر کا معاملہ تو چیف جسٹس کے پیش نظر ہے فیصلہ جو بھی آئے حالات دن بدن تباہی کے راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کپتان پر قاتلانہ حملے کے ارتکاب نے سارے کرداروں کو ننگا کر دیا ہے، عوام کا غیض و غضب شعلہ جوالا کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور قرائین یہ ہیں کہ اگر حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بہتری کی کوئی صورت نہ کی گئی تو قیامت صغریٰ کے واقعہ کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔
کپتان کے جذبۂ حریت و استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ انداز جنوں اور تیز ہو گیا، عوام کی محبت، وارفتگی کپتان پر حالیہ قاتلانہ حملے کے بعد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ ہر طاقت ہر قوت سے ٹکرانے کیلئے کمر بستہ ہیں اور عمران کیلئے مر مٹنے اور مخالفوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد کو بند کرنے، سیکیورٹی کے نام پر حربی تیاریوں اور ٹینک و آرمرڈ اسلحہ سے ملک میں مزید عدم استحکام کی ہی صورت نظر آتی ہے۔
کپتان نے تمام تر کٹھنائیوں اور اپنی جان کے خطرے کے باوجود لانگ مارچ کا دوبارہ اعلان کر دیا ہے، وزیر آباد سے مارچ کے دوبارہ آغاز کیساتھ، فیصل آباد اور پختونخواہ، جی بی و آزاد کشمیر سے بھی قافلے پنڈی پہنچنے کیلئے تیار ہیں۔ ملک بھر میں کراچی سے چاغی و بلتستان تک عوام بپھرے ہوئے ہیں اور حکومت و ریاست کیخلاف احتجاج کا ہر طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں جبر و استبداد کے حربے یا عمران خان کیلئے کوئی بھی سازش وطن کی شکست و ریخت کا باعث ہو سکتی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق عمران کا بیانیہ ناکام بنانے کیلئے شہید بینظیر کی شہادت کے سانحے کو دہرایا جا سکتا ہے، 3 نومبر کو حالیہ اقدام کے حوالے سے اگر خدانخواستہ ایسا کوئی مزید اقدام عمران کیساتھ ہوا تو قوم پاکستان کھپے کہنے کو تیار نہیں ہوگی اور خاکم بدھن پاکستان کے محافظوں کیخلاف کھڑی ہو جائیگی۔ ہماری قوم کے مجاہدوں اور غازیوں سے یہی امید ہے کہ وہ عوام سے متحارب ہونے کے بجائے، وہ تدبیر و عمل اپنائیں جو عوام و محافظین کو یکجا کرنے کا سبب ہو، تقسیم و تنازعہ کا سبب نہ بنے۔ شنید ہے کہ سپہ سالار اور ان کے ساتھیوں نے تمام سیاسی قوتوں کو حالات کی بہتری کیلئے صدر مملکت کی رہنمائی میں انتخابات کے انعقاد اور حالات کی بہتری کیلئے ایک ہفتہ میں متفقہ فیصلہ اور اشتراک عمل کی ہدایت کر دی ہے خدا کرے کہ یہ تاکید صدا بصحرا ثابت نہ ہو اور معاملات بخوبی طے ہوں ورنہ وطن عزیز جس دلدل کی طرف بڑھ رہ اہے اس سے نکلنے کی گنجائش کسی کیلئے بھی نہیں رہے گی۔ حبیب جالب نے غلط نہیں کہا تھا!
اُٹھا رہاہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں
جانشینی اور ذات کے مفاد میں جمہوریت کے دعویداروں سے نجات عوام کی رائے اور شفاف انتخابات میں ہی پنہاں ہے اور وطن کے استحکام کی ضمانت بھی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here