جو لوگ فوج اور عدلیہ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے جا رہے تھے، ان کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ بس کر دیں اگر یہ دو ادارے بھی اپنی تقریم کھو دیں گے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ جہاں اسی فی صد جاہل بستے ہوں وہاں ڈنڈے سوٹے کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے ہمیں پہلے شعور کی منزلیں طے کر لینے دو پھر تنقید بھی ہوتی رہے گی اور پھر اس تنقید سے اصلاح کے مثبت پہلو بھی نکلیں گے ارتقائی عمل کو اپنا وقت لینا ہوتا ہے جن ملکوں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں جہاں قانون کی عملداری ہے وہاں کے لوگ بھی اس چکی سے پس کر ہی یہاں تک پہنچے ہیں امریکہ جیسے ملک میں بھی خانہ جنگی مارا ماری جلا ئوگھیرا ئوہوتا رہا ہے ،سول وار تک کی نوبت بھی آئی، ٹرمپ کے حامیوں نے اس کی عملی جھلک اس جدید دور میں بھی دکھا دی ،پر سمجھدار قومیں بہت جلد ایسی سیچوایشن پر قابو پا لیا کرتی ہیں جس کا ایک چھوٹا سا مظاہرہ عمران خان نے بھی آزادی مارچ کو اسلام آباد تک پہنچنے کے بعد یکدم ختم کر کے دنیا کو دکھایا کہ ہم اس مارا ماری کے متحمل نہیں ہو سکتے ہم معاشی بحران کی اس سطح پر آچکے ہیں کہ جہاں سری لنکا کی کہانی بھی دہرائی جا سکتی ہے، اصل سازش ہی یہی تھی جس کو ایک مدبر قائد نے وقت سے پہلے نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ اس کے سدباب کا بھی اہتمام کر کے دکھا دیا اور اللہ رب العزت کی مدد سے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ سب کو وہی آپشن اپنانا پڑا جو عمران خان چاہتا تھا، پاکستانی حکومت اور ماضی قریب کی اپوزیشن کو بھی باور ہوگیا کہ دنیا ایک گھمبیر بحران سے گزر رہی ہے ،پاکستان میں تو حالت قدرے بہتر تھی اگر ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو پھر سب کچھ گنوا کر ہوش میں آئے تو حاصل حصول کچھ بھی نہ ہوگا کیونکہ مستقل تو رہنا کسی نے بھی نہیں کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہمارے ساتھ ساتھ اگلی نسل کی بھی حالت سدھر جائے جس کو لندن بیٹھنا ہے وہ وہیں رہے جسے یہاں رہ کر عدالتوں کا سامنا ہے وہ کرے اور جسے عوام چاہے وہ آئے اور دلدر دور کرنے کی کوشش کرے اگر کامیاب ہوتا ہے تو بہت اچھا ورنہ کسی اور کو موقع ملے یہی اس جدید دور کے تقاضے ہیں یہی مروجہ قائدے اور قانون اور جن کو بیچ میں گند کرنا ہے بھلے وہ اپنے ہوں یا غیر عوام ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے کچھ کچھ سمجھدار بھی ہو گئی ہے اسے فیصلہ کرنا آتا ہے اور فیصلہ دیوار پر لکھا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔
٭٭٭