محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج اپنے دوست محترم اقبال بھائی کی ایک معرکہ تحریر پڑھی اس سے متاثر ہوکر زینت کالم بنانے کا سوچا جس میں پاکستان کے ماضی اور سپہ سالار کے اچھے فیصلوں کا زکر ہوا ایک بہترین تجزیہ اور تحریر نظر قارئین ہے ،اُمید ہے پسند آئے گی
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
تجھے کھو دیا ہم نے پانے کے بعد
تیری یاد آئی یاد آئی جانے کے بعد
ملا تھا نہ جب تک جدائی کا غم
محبت کا مطلب نہ سمجھے تھے ہم
تڑپنے لگے تیر کھانے کے بعد
تیری یاد ائی تیرے جانے کے بعد
فلم آن کے اس نغمے کے خالق شکیل بدایونی اور دلکش دھنوں سے اسے مقبولیت کی بلندی پر پہچانے والے موسیقار نوشاد، ایک عرصے تک یہ نغمہ دھوم مچاتا رہا اور آج بھی خوب لطف دیتا ہے، اس نغمے کا مکھڑا بعد کے دنوں میں ٹرکوں اور آئل ٹینکرز کے پیچھے صدر ایوب خان کی تصویر کے ساتھ نظر آنے لگا اسلئے کہ ایوب خان کے بعد پاکستان کو اس پائے کا حکمران نہ مل سکا تو نہ مل سکا۔
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاں کہ تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزم خیال میں
گلدستہ نگاہ سویدا کہیں جسے
ایوب خان کی تصویر کیا لگائی حسب روایت طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا ۔ پتہ نہیں کیوں لوگ اس قدر ناشائستہ اور نامناسب انداز اپناتے ہیں حالانکہ اس میں نقصان سراسر خود کا ہی ہے، اول یہ کہ اس وجہ سے ہم اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے گراتے ہیں اور دوم یہ کہ والدین اور اساتذہ کی تربیت پر حرف آتا ہے ، مگر یہ المیہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا ہے اور فخریہ طور پر ہوتا ہے ۔ایوب خان جس زمانے میں مسند اقتدار پر آئے اس وقت پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال کیا تھی ؟ آزادی سے لیکر دس برسوں میں سیاستدانوں کے ہاتھوں اس ملک میں آئے دن کی ٹوٹتی اور بنتی حکومتوں، اور مستقل ریشہ دوانیوں نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا تھا ، ہمارا سیاسی نظام جگ ہنسائی کا سبب بن رہا تھا جب ہی تو پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں سرکاریں بدلتی ہیں ۔ ایوب خان آئے، سب سے پہلے سیاسی عدم استحکام کو لگام دی، سیاستدانوں سے کہا گیا اپنے آپ کو شفاف ثابت کریں تو انہوں نے اس سے اجتناب کیا، ایوب خان نے ماہرین کی ایک جماعت تشکیل دی اور عنان حکومت انکے سپرد کی ۔ آزادی کے وقت صورتحال یہ تھی کہ پاکستان میں نام کو گھریلو صنعتیں ضرور تھیں مگر بڑی صنعتوں کا وجود نہ تھا ۔ ایوب خان کی تشکیل دی ہوئی ٹیم نے ملک میں صنعتی انقلاب برپا کیا، اس زمانے میں خطے کے تمام ممالک مکے مقابل اقتصادی میدان میں پاکستان سب سے آگے تھا ۔
حالت یہ تھی کہ لٹے پٹے مہاجرین سڑکوں اور میدانوں میں خیمہ زن تھے یا جھگی نشین، ان مہاجرین کی آبادکاری ایوب حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے، صرف کورنگی کی مثال ہی کافی ہے، جہاں نہ صرف مکانات دئے گیے بلکہ روزگار کے سامان کے طور پر صنعتی زون قائم کیا گیا ۔
بنگال یا مشرقی پاکستان، ایک ہزار میل دور ایک ٹکڑا اسی لئے رکھا گیا تھا کہ ایک دن اسے ہڑپ کرلیا جائے ۔ تشکیل پاکستان کے فورا بعد لسانی بنیاد پر بھارتی ایجنٹوں کی ریشہ دوانیوں کا آغاز ہوگیا تھا، اگرتلہ سازش ایوب کی اختراع نہیں بلکہ حقیقت تھی جس کا اعتراف تشکیل بنگلہ دیش کے بعد فخریہ طور پر کیا گیا ۔
ایوب خان نے تو بنگال میں صنعتیں لگائیں، اعظم خان جیسے منتظم کے ہاتھوں اہل بنگال کے دل جیتے ، ایوب خان کے انتخابات میں دھاندلی کی بات کرنے والے دیکھیں سنہ کے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی مگر اقتدار کی سپردگی میں عاقبت نا اندیشانہ لیت و لعل نے مشرقی پاکستان کو گنوایا ۔
ایوب خان نے پانی کا معاہدہ کیا مگر ڈیم بھی تو بنائے، انکے بعد آنے والوں بجائے ترقیاتی استعمال کے خزانہ کھا پی کر ختم کیا، اسکے قصور وار بھی ایوب خان ؟
جدہ سعودی عرب ، استنبول ترکی، کلکتہ اور ممبئی بھارت اور نیویارک امریکہ کے کاروباری مراکز ہیں، مگر انکے دارالحکومت ریاض، انقرہ، دہلی اور واشنگٹن ہیں، اب کراچی کاروباری مرکز اور اسلام آباد دارالحکومت ہو تو دقت کیا ہے ؟
خارجہ پالیسی دیکھئے امریکہ اور چین دونوں پاکستان کے دوست اور اقوام عالم پاکستان میں پسندیدہ ملک ۔
مندرجہ بالا تجزیہ پڑھ کر جو ایک گانے اور شاعری سے شروع ہوا کچھ اپنا بھی اضافہ ازراہ تمنن کردیتا ہوں امید ہے قارئین پسند فرمائیں گے جو کہ پاکستان اور ریاست سے متعلقہ امور میں دلچسپی رکھتے ہیں اور خبریں و تجزیئے شوق سے پڑھتے ہیں ۔
ہر چند کہ صدر ایوب خان مرحوم نے ملکی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اس کو وقت کے اچھے فیصلے کرکے خود انحصاری اور خود مختاری کی ڈگر پر ڈالا اس دوران جو غلطیاں سرزد ہوئیں اور مابین مصالحتی اقدام اٹھائے گئیے اس کا نتیجہ یہ نکلا جو آج حالیہ دور کا پاکستان پیش کررہا ہے ہر چند ہماری جڑیں پاکستان میں ہیں ہماری پہچان پاکستان ہے کیونکہ ہم وہاں پیدا ہوئے اور آج تک اس ملک سے محبت اور وفاداری ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی چاہے حالات کچھ بھی ہوں مسئلہ روز اول سے ہی تطہیر کا رہا مملکت پاک میں دور اچھا اور برا آتا رہا اور جاتا رہا ملک جیسے تیسے کرکے چلتا رہا لیکن اب حالت یہ آچکی ہے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں !!
سیاستدان ملک و قوم سے اکثریت میں مخلص نہیں ان کے اثاثے اور اولادیں بیرون ملک مقیم ہیں وہ کیوں پاکستان کا سوچنے لگے عوام چاہے ملک سے باہر ہوں یا اندر ان کا ہی حال برا ہے اب مل کر اس نظام کو بدلنا ہوگا اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے ۔
اور زیادہ کچھ نہیں کرنا ہے ہر شخص احساس زمہ داری کے ساتھ جو جس کا کام ہے انجام دے بس اور وہ ایمان داری کے ساتھ اس سادہ اصول سے انقلاب آسکتا ہے جس کیلئے کوء ہنگامہ کھڑا کرنے املاک کو نقصان پہنچانے یا کسی بھی حالات کی خرابی کی ضرورت نہیں ہے جب اللہ پاک کے کرم سے اتنی میگا کرپشن کرکے بھی یہ ملک آج تک قائم و دائم ہے تو یہ اللہ کا انعام ہے یہ ایسے ہی ہمیشہ قائم رہیگا البتہ دشمن کے دانش ضرور کھٹے ہونگے اللہ نے چاہا تو دعا ہے پاکستان ہمیشہ ترقی کرے اور ملک کو وفادار اور مخلص لوگ آگے آکر چلائیں جو ملک و قوم کا نام روشن کریں آمین
٭٭٭