حالات کی بہتری دلیل ہے عدم برداشت نہیں!!!

0
146
جاوید رانا

گزشتہ ہفتے پاکستانی سیاست جن گھمبیر حالات اور انسانیت کی بدترین نفی سے دوچار رہی وہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کی بدترین بلکہ وحشیانہ کردار کی عکاس بن چکی ہے۔ سیاسی اختلافات اور حکومتی و مخالف اشرافیہ کے درمیان مباحث، تنقید سمیت جلسے، جلوس، مظاہرے وغیرہ سیاسی پراسیس کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن مہذب معاشرے میں انہیں انسانی و معاشرتی اقدار کی حدود و قیود میں رکھا جاتا ہے۔ عالم اسلام کے مقتدر عالم و دانشور، مثنویٰ مولانا روم کے خالق جلال الدین رومی کا قول ہے۔ ”تمہارے دعوے کی صداقت بلند آہنگ میں نہیں، مضبوط دلیل میں ہے”۔ پاکستان کی سیاست یوں تو کئی عشروں سے سیاسی کی جگہ ذاتیات پر کیچڑ اُچھالنے، غلط بیانیوں، دعوے اور منافرت سے ہی عبارت رہی ہے لیکن پھر بھی بعض حدود سے باہر نکلنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ عمران خان کے 25 مئی کے لانگ مارچ اور اسلام آباد پہنچنے کے تناظر میں حکومتی جانب سے جو قیامت برپا کی گئی، اس کی تفصیلات سے قارئین، میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔مصور پاکستان، اسلام کی نشاط ثانیہ کے داعی علامہ اقبال کی بہو، سابقہ جسٹس عدالت عالیہ اور قوم کی لائق احترام ناصرہ جاوید اقبال کے گھر پر دھاوا اور محترمہ سے بدسلوکی، ڈیڑھ سالہ بچے کی آنسو گیس کی شدت سے سانس رک جانا ایسے قبیح اور انسانیت سوز اقدامات جنہیں مذہب، انسانیت، اخلاقیات اور معاشرت کے کسی بھی زاوئیے سے درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کے سات افراد کی ہلاکت، درجنوں رہنمائوں کی مفروبیت کیساتھ درجنوں سیکیورٹی اہلکاروں کا زخمی ہونا بھی اس حقیقت کا مظہر ہے کہ حکومت وقت بربریت کے کس مقام پر پپہنچ چکی تھی۔ دوسری جانب عمران خان نے مارچ مؤخر کر کے عوام اور ریاست کے درمیان مزید خونریزی ہونے کی نوبت نہ آنے دی کہ عمران نے بعد میں یہ انکشاف کیا کہ بعض کھلاڑیوں کے پاس بھی پستول اور دیگر اسلحہ تھا جس سے وہ اس وقت لا علم تھے۔ اگر خدانخواستہ تصادم ہو جاتا تو جو قیامت برپا ہوتی اس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی محاذ آرائی میں تشدد اور خوفناکی کی یہ صورتحال کیوں ڈویلپ ہوئی۔ پی ٹی آی اور اس کے طرفدار میڈیا نمائندگان اور مبصرین و تجزیہ کار اس کا ذمہ دار وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے اس کے ماڈل ٹائون جیسے ماضی کے اقدامات کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ حکومتی حلقے اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی کے رہنمائوں خصوصاً شیخ رشید کے دعوئوں، خونریز مارچ کے بیانات کو وجہ بناتے ہیں۔ حالات کی سنگینی کا خوف اور بے یقینی کی کیفیت مزید بڑھتی جا رہی ہے اور کسی بہتری کی صورت تاحال نظر نہیں آتی۔ کپتان اپنے فوری انتخابات کے مطالبے پر اڑا ہوا ہے اور سپریم کورٹ سے احتجاج و مارچ کے حق کیلئے رجوع کرنا چاہ رہا ہے۔ دوسری جانب حکومت اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے ہر وہ اقدام کر رہی ہے جو اسے نہ صرف موجودہ حالات میں مستحکم کر سکیں بلکہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کا موجب ہوں۔ پارلیمان سے انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں ترمیمی بلوں کی منظوری، قائد حزب اختلاف و چیئرمین PAC کی نامزدگیاں اس حقیقت کی مظہر ہیں کہ موجودہ تیرہ جماعتی حکومت آنے والے انتخابات سے قبل سارے اہداف اپنے حق میں کرنا چاہتی ہے اور طے کر چکی ہے کہ اسمبلی مدت پوری کریگی۔
کپتان اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے اور اس بھان متی کی حکومت کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جلسوں، جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومتیں گرائی نہیں جا سکتیں نہ ہی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
کپتان کا 126 دن کا 2014ء میں تاریخی دھرنا اس کی واضع مثال ہے۔ حکومتیں بنانے اور گرانے کے محرکات خاص طور سے وطن عزیز میں متعین اور فیصلہ سازوں کی منشاء سے مشروط ہیں۔ کپتان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کہنے کو تو آئینی اقدام تھا لیکن اس کے پس پُشت بھی وہی محرکات کار فرما رہے جن کی ہم نے نشاندہی کی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کپتان کے قومی اسمبلی سے استعفے پر ہم نے اپنے کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے وہ تحفظات اب صحیح ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کپتان کے مضبوط بیانیئے، عوام کی ملک و بیرون ملک بھرپور حمایت، ریکارڈ جلسوں اور بھرپور جدوجہد کے باوجود پارلیمان میں نہ ہونے کے باعث، برآمدی حکومت اپنا مفاداتی کھیل بہ آسانی کھیل رہی ہے۔ اب پی ٹی آئی کے بعض اہم اراکین کے استعفے منظور کرنے کی کہانی بھی سامنے آئی ہے کہ خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا ڈرامہ رچا کر پارلیمان میں اکثریت بنائی جائے۔ شنید یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی حکومت کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے مختلف آئینی اور عدالتی آپشنز پر بشمول پارلیمان سے اجتماعی استعفوں کی تصدیق یا پارلیمان میں واپسی پر غور و خوض کر رہی ہے۔ تاہم ابھی کوئی واضح صورتحال سامنے نہیں آئی ہے۔
ہم نے کالم کے آغاز میں مولانا جلال الدین رومی کے ایک قول کا حوالہ دیا تھا دیکھا جائے تو وطن عزیز میں فی زمانہ بلند آہنگ صرف سیاسی منظر نامے میں ہی نہیں بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں سرایت کر چکا ہے اور دلیل کی آفاقیت مفقود ہو کر رہ گئی ہے۔ معاشرت، تجارت، ریاست، حکومت حتیٰ کہ افراد اور خاندان بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں بلند آہنگ سے مراد محض بلند آواز سے اپنی بات یا اپنا متمع نظر ہی نہیں بلکہ اپنے مؤقف کو منوانے کیلئے ہر وہ طریقہ اپنانا ہے جو دوسرے پر بھاری پڑے اور اسے بیک فٹ پر رکھے۔ خواہ مقابل کا بیانیہ کتناہی منصفانہ اور حقیقی کیوں نہ ہو۔ آج کے دور میں گلوبل ویلیج اور کثیر الجہت میڈیا کے باعث بلند آگاہی کی منفی اشکال اس قدر طاقتور ہو چکی ہیں کہ معاشرے اپنی مثبت شکل کھو چکے ہیں اور عدم برداشت کو اپنی کامیابی کا استعارہ بنا لیا گیا ہے۔ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال اس کی وہ مثال ہے جس میں گھر سے لے کر سیاست وا قتدار کے ایوانوں تک انتشار، خلفشار اور عناد ہی نظر آتا ہے۔ اور اس کے اثرات ملک و قوم دونوں کی تباہی کے اشارے دے رہے ہیں۔ کیا ہمارے قومی و سیاسی قائدین اس جانب توجہ کریں گے کیونکہ قومیں اپنے رہنمائوں کے عمل و فعل سے متاثر ہوتی ہیں۔ ہماری اپنے رہنمائوں مقتدرین سے یہی عرض ہے کہ دلیل کو اپنے مؤقف، عمل اور فیصلوں کی بنیاد بنائیں کہ یہی حالات کی بہتری کی راہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here