جناب رسول اکرمۖ کی پیدائش کا یہ مہینہ جسے ہم ربیع الاول کہتے آئے تھے اور سنتے آئے تھے۔اب اسے عید میلادالنبیۖ کہا جاتا ہے۔اس لیے کے اس مہینے کو پاکستان کے مسلمان باقاعدہ عید کی طرح مناتے ہیں۔سڑکیں سجائی جاتی ہیں،روشنیاں گلیوں اور سڑکوں کو بھی جگمگا رہی ہوتی ہیں۔جگہ جگہ محفل میلاد منعقد ہو رہی ہوتی ہے اور لوگ نئے کپڑے پہن کر اس میں شرکت کر رہے ہوتے ہیں،ان منفرد حضرات کو علماء اور حضورۖ سے محبت کرنے والے کہا جاتا ہے۔تقریروں سے آپۖ کی سیرت بیان کرتے ہیں ان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور جلسے جلوس بھی نکالے جاتے ہیںاور واقعی میں ان جگہوں پر عید جیسی گہما گہمی ہوتی ہے۔آپۖ جب اس دنیا میں تشریف لائے تو گھر والوں کے لئے خوشی کا پیغام لائے کے آپ اپنے مرحوم والد کے بعد دادا کے لئے سکھ بھری گھڑی لے کر آئے ، ماں کے لئے دل کا سکون ،باپ نہیں تو کیا بیٹا ہے۔دائی حلیمہ کی اونٹنی پر سوار ہوئے ، بی بی حلیمہ کے گھر میں رزق کی برکت ہوئی۔ رحمت خداوندی کے پھول برسے۔گویا آپ کی پیدائش واقعی خوشی بھرا وقت تھا۔آپ جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے آپ کی شخصیت آپ کی خاص طور پر دنیا میں آمد کا مقصد بتاتی چلی گئی۔آپ کے زمانے میں عیسائی بھی تھے اور یہودی بھی بت پرست بھی لہٰذا آپ ایک ایک چیز کا جائزہ لیتے غوروفکر کرتے افکار وخیالات کا سلسلہ بندھ جاتا اور دیر تک اسی عالم میں پڑے رہتے رہ رہ کر آپ سوچتے!کسی کی راہ ٹھیک ہے اور کسی کی غلط؟کون حق پر ہے ؟اور کون باطل؟حق کہاں ہے؟اور وہ ہے کیا؟کم سن مگر عقلمند اور روشن ضمیر محمد کو فکر تھی کسی طرح حق مل جائے تاریکی کا پردہ چاک ہوجائے اور روشنی نظر آجائے۔لڑکپن کا زمانہ کھیل تماشے کا زمانہ ہوتا ہے لیکن آپ کھیل تماشے سے کوسوں دور رہتے بے کار باتوں اور فضول کاموں میں کوئی دلچسپی نہ لیتے۔ہمیشہ حق کی دھن میں رہتے اس فکر میں رہتے کہ کوئی ایسی بات معلوم ہوجائے جس میں کوئی رہنمائی ہو۔کوئی ایسا نشان نظر آجائے جس سے کسی حقیقت کا سراغ لگتا ہو۔گھر والوں کے ساتھ عرب کے مشہور بازار جاتے جو مکہ کے آس پاس ہی لگتے اور حرمت والے مہینوں میں لگتے جن میں جنگ حرام ہوتی ،یہ بازار آدمیوں سے بھرے ہوتے ،ان میں جگہ جگہ کے باشندے ہوتے ایسے میں آپ کو لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کے افکار وعقائد کو سمجھنے کا اور ان کے قول وعمل کو پرکھنے کا بڑا اچھا موقع ملتااور یہ فیصلہ کرنے میں بھی آسانی ہوتی کون راہ راست پر ہے اور کون نہیں ہے۔پھر جب آپۖ تنہائی میں ہوتے اور یکسوئی حاصل ہوتی تو ساری باتیں سوچتے جو بات صحیح معلوم ہوتی ذہن نشین کر لیتے جو غلط معلوم ہوتی دور ڈال دیتے۔بارہ سال کی عمر سے بکریاں چراتے اس سے غوروفکر میں مدد ملی۔آپ نے لڑکپن اور جوانی کے سال دوسرے لڑکوں کی طرح فضول باتوں اور بے مقصد کاموں میں نہیں گزارے تھے ۔آپۖ کی زندگی یہی آپ کے شب ور وز تھے، تنہا رہنا نظام کائنات کا مطالعہ کرنا ،ہنگاموں سے دور رہنا اور عالم کے سن انتظام پرغور کرنا،اسی غوروفکر سے آپ نے اللہ کو پہچانا ،دنیا میں انقلاب لانے کے لیے آپ کی بہترین سیرت اور غوروفکر کی عادت نے آپ کی مدد کی آپ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اس نے آپ کو پیغمبر بنایا اور آپ نے کتاب اللہ سے رہنمائی حاصل کی۔ہم آج عید میلاد النبی مناتے ہیں تو بہت زیادہ ہنگاموں میں کھو جاتے ہیںاور حضور کی پیدائش کا اصل مقصد جو ہر جلسے جلوس اور ہر محفل میلاد میں دوہرایا جاتا ہے اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اور ان کی سیرت کو اس لیے نہیں اپنا سکتے کے غوروفکر کی عادت نہیں۔تنہائی اور یکسوئی کا شوق نہیں۔صرف ہنگامے ایک محفل سے دوسری محفل ایک جلوس سے دوسرا جلوس اسی میں وقت گزارتے ہیں۔سجاوٹ روشنیاں ان سارے ہیں اور اصل مقصد سے ہٹ جاتے ہیں۔اسی لیے آپۖ کی عادات کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔جشن عید میلادالنبیۖ کا یہی مقصد ہے۔
٭٭٭