امریکی نظام حکومت درہم برہم ہوچکا ہے

0
100
حیدر علی
حیدر علی

جب اُس نے کہا کہ ” ہاؤ آر یو ..؟”
تو میرے ذہن میں ایک قیامت خیز سا جھٹکا لگا. میں نے سوچا کہ چلو بھائی آج تم بھی زندگی میں پہلی مرتبہ سولی پر چڑھے ہو. دوسری بات جو میرے ذہن میں آئی کہ میرے والٹ میں کتنی رقم ہے. آیا مجھے والٹ سے ہی ہاتھ دھونا پڑیگا یا کچھ کچھ کرارے کرارے نوٹ نکال دینے سے آفت ٹل جائیگی.حالانکہ میں دِن کے اگیارہ بجے مین ہٹن کے پارک ایونیو پر تھا ، جہاں مجھے آنکھ کے ڈاکٹر سے اپنی عینک کا نمبر لینا تھا. امریکا میں تو عینک کا نمبر لینے کیلئے تین مرتبہ آئی سپیشلسٹ کے دفتر چکر لگانا پڑتا ہے. پاکستان میں صرف ایک مرتبہ ، اور وہ عینک اور نمبر تاحیات سود مند ثابت ہوتا ہے، بلکہ بعض میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ دور سے دیکھنے کیلئے جو عینک وہ پہنے ہوے ہیں ، وہ اُن کے ابّا کا تھاجو اُنہوں نے وارثت میں اُن کیلئے چھوڑگئے تھے. اے کاش ! وہ ایک دوربین بھی چھوڑ جاتے جس سے وہ اپنی بیگم کو دیکھ سکتے. بہرکیف وہ لانبا تلنگا شخص میرے بازو کو پکڑ کر سڑک کے کنارے لے آیا، اور اپنا تعارف کراتے ہوے کہا کہ ” میں اے کے ولیم اٹارنی ہوں.” میرے ذہن میں فورا”خیال آیا کہ شاید وہ لینڈ لارڈز اور کرائے داروں کا وکیل ہواور میں اُسے اپنے کرائے دار کو نکالنے کیلئے استعمال کر سکوں. پھر اُس نہ کہا کہ اُسکی فیملی کی مِسیسیپی میں پچاس ہزار ایکڑ زمین ہے . میں نے دِل میں سوچا کہ دنیا کے بعض ممالک اِس سے کم ایکڑ کی زمین میں آباد ہیں. بہرحال وہ پتّے کی بات پر آگیااور اُس نے کہا کہ اُسکی فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ساری زمین کو پانچ پانچ ایکڑ میں تقسیم کر کے لوگوں کو ریوڑی کے بھاؤ فروخت کر دینگے.لہذا اگرمیں اُس زمین کو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہوں تو وہ مجھے پانچ سو ایکڑ زمین پانچ سو ڈالر میں فروخت کر دیگا. پھر اُس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میرے پاس کوئی کریڈٹ کارڈ ہے؟ میں نے جواب دیا کہ کریڈٹ کارڈ ہے ، لیکن اُس میں کوئی کریڈٹ نہیں ہے. اُس نے کہا کہ کوئی بات نہیں اُسکا کزن زیرو کریڈٹ پر بی ایم ڈبلو گاڑی خرید سکتا ہے. لہذا بس میں اپنے کریڈٹ کارڈ کو اُس کے حوالے کردوں.میں نے سوچا کہ اگر میں اپنا کریڈٹ کارڈ اُس کے حوالے کردوں تو وہ اُس سے بی ایم ڈبلو کی بجائے فیراری نہ خرید لے، لہذا میں نے 20 ڈالر والے فارمولے کو آزمانے میں ہی عافیت جانا. میں نے 20 ڈالر اُس کے ہاتھ میں تھماتے ہوے کہا کہ یہ لواور خراماں خراماں جاکر لنچ کرلو . مجھے بھی ڈاکٹر کے آفس جانا ہے. میں زمین لینے کے بارے میں اپنی وائف سے پوچھونگا. میں تیزی سے اُسے خیرباد کہہ دیا. پتا نہیں اُس کی پچاس ہزار ایکڑ زمین سطح زمین پر تھی یا زیر سمندر، اور پھر سڑک پر کھڑے ہوکر راہگیروں کو زمین فروخت کرنا امریکا کے ایک نئے فراڈ کلچر کا شاخسانہ تھا.
شاید آپ کے علم میں یہ بات ہو یا نہ ہو کہ اِن دنوں امریکا میں کریڈٹ کارڈ کے فراڈ، جھوٹا وعدہ کرکے کسی چیز کو فروخت کرنا یا ٹیلیفون ، انٹرنیٹ یا کیبل کی سروس کو کم قیمت کا وعدہ کرکے آپ کے کریڈٹ کارڈ کا نمبر لینا ایک دوسرا وائرس کی طرح پھیل گیا ہے. وجہ اِس کی خود امریکی نظام حکومت کے درہم برہم ہونے کا نتیجہ ہے. پولیس اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے کام کرنا چھوڑدیا ہے. وہ صرف آپ کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ آپ خود احتیاط برتیں.چھوٹی چھوٹی کمپنیاں کیا بڑے بڑے بینک اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے بے چین ہیں. چند دِن قبل ہی ایک خاتون کے بینک اکاؤنٹ سے ہزاروں ڈالر مبینہ طور پر نکالنے کا واقعہ میڈیا پر آیا ہے.

صارفین کے بینک اکاؤنٹس سے ہزاروں ڈالر منٹوں میں نکال لئے جاتے ہیں. پہلے اُنہیں ٹیکسٹ میسیج موصول ہوتا ہے کہ اُن کے بینک اکاؤنٹ میں کچھ غیر معمولی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں، اور پھر کوئی اپنے آپ کو بینک کا آفیسر ظاہر کرکے مذکورا صارف سے اُس کے بینک کے اکاؤنٹ کے بارے
میں ساری معلومات حاصل کرتا ہے. حالانکہ صارفین کو یہ بارہا تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بینک اکاؤنٹ کے بارے میں کسی بھی انجانے کو کچھ بھی نہ بتائیں.ایک خاتون باربرا زیہاجلو جو اِسی طرح کے فراڈ کا شکار ہوئی ہیںمیڈیا کو بتایا کہ وہ پارک میں چہل قدمی کر رہی تھیں کہ اُنہیں ایک ٹیکسٹ میسیج موصول ہوا جس میں اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا اُنہوں نے زیل ٹرانزیکشن کے ذریعہ کسی کو $1,370.00 بھیجا ہے. باربرا نے نفی میں جواب بھیجا. اُس کے چند لمحہ بعد ہی کوئی شخص جو اپنے آپ کو بینک آف امریکا کا ملازم ظاہر کر رہا تھا باربرا کو کال کرکے اُن کی اِس ضمن میں مدد کرنے کیلئے پیکش کی. اُس شخص نے باربرا کو اصرار کیا کہ اِس ٹرانزیکشن کو روکنے کیلئے اپنی ساری رقم بینک آف امریکا کے نئے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں. باربرا نے اُس کے کہنے پر عمل کردیا. تاہم وہ رقم اُن کے اصلی اکاؤنٹ سے نکل کر کہاں گئی اِسکا اُنہیں پتا نہ چل سکا . بعد ازاں باربرا نے بینک آف امریکا میں ایک کلیم داخل کیا. بینک نے پہلے تو وہ رقم اُنہیں واپس کرنے سے معذرت کرلی، لیکن بعد ازاں چینل 7 کے مداخلت سے
باربرا کو اُن کی رقم واپس مل گئی .
ٹیلی مارکٹنگ سایبر کرائم کا دوسرا نام ہے. ہزاروں صارفین روزانہ اِسکا شکار ہوجاتے ہیں. کوئی ٹیلیفون کے ذریعہ اپنی گاڑی کا ایکسٹنڈیڈ وارنٹی خرید لیتا ہے ، اور جب وہ اُس کمپنی کو اپنی گاڑی کی مرمت کیلئے کال کرتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اُس کمپنی کا کوئی نام ونشان تک نہیں ہے ، لیکن بھاری رقم اُس

کے اکاؤنٹ سے نکل کر ہوا میں تحلیل ہوچکی ہوتی ہے.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here