پاکستان نے ورلڈکپ کے پہلے میچ میں ہندوستان کو جو عبرتناک شکست دی ہے وہ صدیوں تک یاد رکھی جائیگی اور ہندوستان یہ زخم کبھی نہیں بُھلا سکتا۔ کہا یہی جا رہا تھا کہ ہندوستان آسانی سے یہ میچ جیت لے گا اور ہندوستان کے کھلاڑی ہربھجن سنگھ نے جو پاکستان کے بارے میں الفاظ کہے تھے کہ ہندوستان آسانی سے یہ میچ جیت کر پاکستان کو گھر بھیج دے گا لیکن ان کا یہ بڑا بول ان کے سامنے آگیا ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن ایسی جیت جس نے دنیائے کرکٹ پر یہ واضح کر دیا کہ پاکستان کی کرکٹ کو کتنا ہی نقصان پہنچائو لیکن اس ٹیم کو کمزور نہ سمجھو یہ کسی وقت بھی کچھ بھی کر سکتی ہے جہاں تک ہندوستان کی ٹیم کا تعلق ہے وہ ہر لحاظ سے پاکستانی ٹیم سے بہتر تھی لیکن ان کے پاس وہ جذبہ نہیں تھا جو پاکستانی کھلاڑیوں میں پایا جاتا ہے۔ پورا دبئی نیلا ہو گیا تھا جہاں دیکھو لوگ انڈیا کی جرسیاں پہنے گھوم رہے تھے۔ سٹیڈیم میں بھی 70% انڈین کرائوڈ تھا پاکستانی بہت کم تعداد میں تھے اور بچارے ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے تھے جب بابر اعظم نے ٹاس جیت کر انڈیا کو بیٹنگ کرنے کو کہا تو ناقدین نے اعتراض کیا کہ پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنا چاہیے لیکن دبئی کی پچ کی حالت اور وہاں کے موسم کی وجہ سے دوسری اننگز میں نہ ہی بال ٹرن لیتی ہے اور نہ ہی سوئنگ ہوتی ہے اس لئے بابر اعظم نے پہلے بائولنگ کا فیصلہ کیا اور جیسے ہی شاہین شاہ آفریدی نے پہلی وکٹ حاصل کی تو اس وقت ہی پتہ چل گیا تھا کہ بابر اعظم نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے اور اس کے بعد پھر دوسری وکٹ اور انڈیا کے کھلاڑیوں کو مشکلات پیش آتی رہیں سوائے ویرات کوہلی اور پینٹ کے کوئی بھی کھلاڑی وکٹ پر نہ رُک سکا اور 151 پر پوری ٹیم ڈھیر ہو گئی۔ اور پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے دونوں اوپنرز نے جس محتاط انداز میں میٹنگ کی اس نے کرکٹ کی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کر دیا جس کو شاید کوئی بھی نہیں عبور کر سکتا ہوتا یہی ہے شارجہ اور دبئی میں جب ٹیم ہارنا شروع ہوتی ہے تو اسٹیڈیم خالی ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہی دبئی اسٹیڈیم میں ہوا انڈیا ٹیم کے چاہنے والے جب پاکستان نے سو رنز بنائے تو اسٹیڈیم تقریباً خالی ہو چکا تھا اور پاکستانی خوشی میں جُھوم رہے تھے شروع میں جو جوش و خروش تھا وہ مانند پڑ گیا اور انڈیا نے اپنی شکست کو دل و جان سے قبول کیا۔ ویرات کوہلی نے بابر اعظم کو مبارکباد دی اور رضوان کو گلے لگایا یہ ہوتی ہے بڑے کھلاڑی کی پہچان یقیناً ویرات کوہلی بڑا کھلاڑی ہے، بابر اعظم اور اس کا مقابلہ کرنا ٹھیک نہیں اس کے باوجود بابر اعظم اس سے آگے ہے جبکہ بابر اعظم کو چھ سال ہوئے ہیں اور ویرات کوہلی پچھلے پندرہ سال سے کھیل رہا ہے۔ ویرات کوہلی کا شاید کپتان کی حیثیت سے یہ آخری ورلڈکپ ہو اس لیے T-20 میں اس کی پرفارمنس وہ نہیں ہے جو ون ڈے اور ٹیسٹ میں ہوتی ہے۔ پاکستانی شاہینوں نے انڈیا کو آئوٹ کلاس کر دیا وہ چاہے بیٹنگ ہو چاہے بائولنگ ہو اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ پاکستان کے بغیر کرکٹ نامکمل ہے جس طرح نیوزی لینڈ نے اور اس کے بعد انگلینڈ نے جو حرکت کی اس لئے پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا ہے اور پوری ٹیم کے حوصلے بلند ہیں جہاں تک سلیکشن کا تعلق ہے پاکستان کی ٹیم متوازن ہے ہاں اگر شاداب کی جگہ سرفراز کو ڈال دیں تو اس کے تجربے سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ویسے بابر اعظم نے کپتانی بہت عمدہ کی اور اپنے بائولروں کا خُوب استعمال کیا یہی حوصلہ اور ہمت سے یہ کھیلتے رہے تو ورلڈکپ جیتنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ پاکستان کیلئے افغانستان کا میچ ضرور مشکل ہوگا نیوزی لینڈ کو مار کر سیمی فائنل میں پہنچ جائیگا۔ اگر انڈیا کو نیوزی لینڈ مار دیا ہے تو انڈیا باہر ہو جائیگا پھر فائنل کا مزہ ختم ہوجائیگا۔ فائنل میں انڈیا اور پاکستان آئیں تو کرکٹ دیکھنے میں مزہ آجائیگا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ہم تمہارے ساتھ ہیں تم جیتو یا ہارو انڈیا کو ہرا کر تم نے ہمارے دل جیت لئے ہیں۔
٭٭٭