تاریخ عالم پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں اور تاریخ کے ہر گوشے پر غوروفکر کرتے ہیں تو ایک بات صاف واضح اور روشن دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ واقعہ حادثہ اور تاریخی حقیقت کہ جیسے تمام دنیا کے صاحبان علم وفضل نے اور اہل فکر ونظریے انسان کے لیے اچھا کیا ہے اس کی بنیاد میں صدق یعنی سچائی کارفرما رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی اچھا کام اور کوئی نیک اقدام سچائی سے خالی نہیں ہوسکتااگر ہم غور کریں اور دل کی تمام سچائی کے ساتھ فکر کریں تو ہمارے دین اسلام کی بنیاد سچائی پر ہے۔حضورۖ ہمارے پیغمبر تھے ہمارے قائد تھے ہمارے رہنما تھے اور ان کے کردار کا سب سے اہم پہلو یہی ہے کہ وہ صادق تھے سچے تھے امین تھے اور اس بلندی کردار نے آپ کو اس مرتبے تک پہنچایا کے آپ کا پیغام انسانوں کے دلوں میں اتر گیا اور دین اسلام کی روشنی سے اس زمین کو منور کردیا،سچائی کا تعلق انسان کے دل اور زبان سے ہے دل اور زبان ہم آہنگ ہوں تو سچائی پیدا ہوتی ہے۔ اب اگر ہم سچائی کو اختیار نہ کریں تو ہمارے کردار سے کوئی بھی متاثر نہیں ہوسکتا حتیٰ کے ہماری اولاد بھی نہیں اب ہم امریکہ میں آنے کے بعد بھی اپنے اندر اگر سچائی نہیں پیدا کر پائیں اور قول وعمل کی پابندی نہ کریں تو وہ بچے جو یہاں پیدا ہو کر بڑے ہو رہے ہیں اور جو یہاں کی تعلیم سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف اتنے خود اعتماد ہو چکے ہیں کے سچ بات کہنے میں نہیں ڈرتے وہ اپنے والدین کے قول وعمل کو بھی جانچنے لگتے ہیں اور بڑے دکھ کی بات یہ ہے کے وہ اپنے ان والدین کے فعل کو دیکھ کر جن کے اندر سچائی نظر نہیں آتی اسلام سے دور ہو رہے ہیں۔وہ یہ جانتے نہیں کے اسلام کی بنیاد سچائی ہے وہ تو یہ دیکھتے ہیں کے ان کے والد یا والدہ اسلام کے نام پر ہی بہت سارے کام کرتے ہیں مگر وہ ان کے اپنے فائدے کے لئے ہمیں اور ان کی اسلام سے محبت سے زیادہ ان کو امریکہ میں رہنے کا آسان طریقہ ہی دکھتا ہے کے وہ اسلام سے قریب ہوجائیں۔ بچوں کو بڑا عجیب دکھتا ہے کے ان کے والد صرف لوگوں سے میل جول بڑھانے کے لئے مسجد کار نے کرتے ہیں۔مسجد میں کوئی اچھی پوزیشن پانے کے لئے اس لئے جدوجہد کرتے ہیں کے ان کی زیادہ سے زیادہ جان پہچان ہو۔اچھے سے اچھا سوشل سرکل بن جائے۔مسجد سے باہر نکل کر یہ لوگ اتنی دنیا داری مشغول ہوتے ہیں کے پہچان نظر نہیں آتی۔جو داست باز ہیں سچے ہیں ان کے بچے ان کا راستہ اپنائیں یا نہ اپنائیں مگر ان کی عزت کرتے ہیں اور جو راست باز نہیں ہیں ہر تول وعمل میں تضاد نظر آتا ہے۔ان کے بچے تو ایک دم ہی حیران رہ جاتے ہیں کے یہ کیسا اسلام ہے جہاں سچائی نظر نہیں آتی۔
سچائی کے معنی صرف سچ بولنے کے نہیں ہیں بلکہ عمل کی سچائی کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔دل سچا ہوتا ہے تو اس میں خلوص ہوتا ہے خلوص سے جو بھی کام کیا جائے اس کا اثر ہماری آل اولاد پر ضرور پڑتا ہے۔آج کل خلوص کی کسی نے ہی ہماری اولاد کو سوچ کے دہانے پر کھڑا کردیاہے وہ یہ سوچتی ہے کے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اسلام سچائی سکھاتا ہے اور والدین کے دل میں سچائی کی جگہ صرف اپنے فائدے کے لیے اسلام کا استعمال رہ گیا ہے۔ کہنے کو یہ چھوٹی شاپس ہیں مگر خلوص نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔
٭٭٭٭