تحریک لبیک کیخلاف پنجاب میں رینجرز تعینات

0
132

راولپنڈی (پاکستان نیوز)تحریک انصاف کی حکومت اس وقت عجیب صورتحال کا شکار ہو چکی ہے، ملکی حالات بے یقینی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان جس کی ایماء پر اسلام آباد مارچ کی جانب بڑھ رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عمران حکومت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جس کی دونوں جانب مصیبتوں کے پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ اگر تحریک لبیک مارچ کی صورت میں اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس مارچ اور دھرنوں کی صورت میں عمران حکومت کی بساط لپیٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جبکہ دوسری جانب اگر حکومت تحریک لبیک کیخلاف طاقت کا بے جا استعمال کرتی ہے تو اس صورت میں عوام میں عمران حکومت کیخلاف نفرت کی آگ کو ہوا دینا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ اپوزیشن پارٹیاں اور دیگر ادارے ایسے موقع کو ہاتھ سے کبھی بھی نہیں جانے دیں گے۔ پاکستان کی سیاسی زندگی میں آنے والے چند روز نہایت اہمیت کے حامل ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں جانب سے زور آزمائی میں قربانی کا بکرا تو بہرحال تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کو ہی بننا پڑے گا۔ کیونکہ یہ دو بڑے ہاتھیوں کی جنگ ثابت ہو گی اور نقصان سراسر تحریک لبیک کا ہی ہو گا۔ موجودہ حالات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس کشمکش کا آغاز گذشتہ چند ہفتوں پہلے ہو چکا تھا جب آرمی چیف کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل ندیم کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ تعینات کرنے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے نوٹیفکیشن میں تاخیر کے معاملے نے پاک فوج اور حکومت میں دوریاں پیدا کر دی ہیں یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں دو سے تین ہفتے لگا دیئے جبکہ اس دوران پاک فوج کی جانب سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا ، پہلے کبھی کسی بھی حکومت کی جانب سے فوجی ترقی و تعیناتی کے عمل میں تاخیری حربے استعمال نہیں کیے گئے ، عمران خان نے حسب عادت اپنی مشاورت شامل نہ کیے جانے پر نئے آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے نوٹیفکیشن کو لٹکائے رکھا اور اب حکومت کو مزہ چکھانے کے لیے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اپنے پے رول پر تنظیموں کو حکومت کے خلاف متحرک کر دیا ہے ، کالعدم تحریک لبیک پاکستان کو بھی ایجنسیوں کی آشیر آباد پر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا گرین سگنل دیا گیا ہے جس کو روکنا حکومت کے لیے چیلنج بن گیا ہے ، حکومت کی جانب سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کیخلاف عسکریت پسند تنظیم کے تحت کارروائی عمل میں لانے کا اعلان کیا گیا ہے اور ان کے کسی بھی مطالبے کو منظور کر نے سے انکار کر دیا گیا ہے ۔ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے والی کالعدم مذہبی تنظیم تحریکِ لبیک پاکستان سے ایک ‘عسکریت پسند گروہ’ کے طور پر نمٹا جائے گا۔ادھر پنجاب میں اس لانگ مارچ کی وجہ سے پیدا ہونے والی امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے دو ماہ کے عرصے کے لیے رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔جمعے کو لاہور سے شروع ہونے والا تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ اس وقت ضلع گوجرانوالہ میں کامونکی کے مقام پر موجود ہے اور اب تک پولیس سے اس قافلے کے شرکا کی پرتشدد جھڑپوں میں چار پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 147 کے تحت حکومتِ پنجاب کی درخواست پر کیا گیا ہے اور صوبائی حکومت دو ماہ تک جہاں چاہے انھیں استعمال کر سکتی ہے۔اْنھوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی شق پانچ کے استعمال کا بھی اختیار دے دیا گیا ہے جس کے تحت نیم عسکری اداروں کو ‘دہشتگردی’ کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔شیخ رشید نے تحریکِ لبیک سے احتجاج ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسا نہ ہو کہ اْن کی تنظیم پر بین الاقوامی پابندی لگ جائے اور وہ دہشتگردوں کی فہرست میں آ جائیں کیونکہ ایسا ہونے پر ان کے مقدمات پاکستان کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔شیخ رشید احمد نے تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے مطالبے پر کہا کہ پاکستان میں فرانس کا سفیر موجود نہیں ہے، تاہم ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔اْنھوں نے کہا کہ وہ اب بھی تحریکِ لبیک سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ لوگ واپس چلے جائیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میں تعینات رینجرز کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت پولیسنگ کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔اس قانون کے تحت مسلح افواج یا نیم عسکری ادارے (رینجرز، فرنٹیئر کور) کو پولیس کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جنھیں استعمال کرتے ہوئے پولیس، فوجی یا نیم عسکری اہلکار ‘دہشتگردانہ اقدامات’ یا انسدادِ دہشتگردی ایکٹ میں موجود جرائم کو روکنے کے لیے فائرنگ کر سکتے ہیں، بغیر وارنٹ گرفتاری کر سکتے ہیں اور تلاشی، کسی کی گرفتاری یا اسلحے وغیرہ کی ضبطگی کے لیے بغیر وارنٹ کسی جگہ پر داخل ہو سکتے ہیں۔اس سے قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد حکومتی فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ٹی ایل پی کوئی سیاسی جماعت نہیں، اْنھوں نے مزید کہا کہ کالعدم ٹی ایل پی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کر سکتی۔اْنھوں نے بتایا کہ فوج، انٹیلیجنس اداروں اور متعلقہ حکام کی مشاورت سے ‘واضح پالیسی فیصلہ’ لیا گیا ہے کہ تحریکِ لبیک کو عسکریت پسند گروہ تصور کیا جائے گا۔پنجاب پولیس کے مطابق اب تک تین پولیس اہلکار تحریکِ لبیک کے کارکنوں سے تصادم میں مارے گئے ہیں ، فواد چوہدری نے مزید کہا کہ باقی دہشتگرد تنظیموں کا جیسا خاتمہ ہوا ہے’ ٹی ایل پی کے ساتھ بھی وہی کیا جائے گا۔اْنھوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے ٹی ایل پی کو الیکشن لڑنے کی اجازت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اداروں کا ‘فرض ہے کہ اپنا کردار ادا کریں۔وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت نے برداشت کا مظاہرہ کیا ہے نہ ہی کہیں طاقت کا استعمال کیا ہے۔اْنھوں نے کہا کہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر جو لوگ مہم چلا رہے ہیں اور جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں وہ اپنے رویوں پر ابھی نظرِثانی کر لیں۔اْنھوں نے کہا کہ جعلی خبروں کے کلچر کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ پاکستان کی ریاست کی عزت’ اور ‘شہریوں کی زندگی کا سوال ہے۔دوسری جانب تحریکِ لبیک پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ حکومت اپنے وعدوں سے پھر گئی اور پھر تشدد کا راستہ اپنایا ہے۔پاکستانی وزرا کی پریس کانفرسوں پر ردعمل دیتے ہوئے ترجمان نے کہا ہے کہ تحریک پر دہشتگردی کا ٹھپہ لگانے والے مقتدر حلقے اپنے گریبان میں جھانکیں،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘قوم کو کہتے ہیں مذاکرات کر رہے ہیں ہمارے ساتھ رابطہ تک نہیں کیا جا رہا،حکومت کی جانب سے تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت میں کلاشنکوف کے استعمال کے الزامات کے بارے میں اْنھوں نے کہا کہ وہ نہتے ہیں۔ اْنھوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان سے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور فرانس سے پاکستان کے سفیر کو واپس بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔کالعدم مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے وفاقی حکومت سے مذاکرات میں ناکامی کا دعویٰ کرتے ہوئے بدھ کو ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا اور اس وقت یہ قافلہ جی ٹی روڈ پر مریدکے سے نکل کر کامونکی پہنچ گیا ہے اور پولیس کی جانب سے اس کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پولیس کے ترجمان کے مطابق بدھ کو تازہ جھڑپوں میں قصور پولیس سے تعلق رکھنے والے اے ایس آئی اکبر ہلاک اور 64 اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔ گوجرانوالہ پولیس کے مطابق زخمی اہلکاروں کو مقامی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔تحریکِ لبیک کی جانب سے بھی اپنے دس سے زیادہ کارکنوں کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ تحریکِ لبیک کی جانب سے پولیس پر فائرنگ کرنے اور تیزاب سے بھری بوتلیں پھینکنے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے پر عملدرآمد اور تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے مطالبات کو لے کر تحریک لبیک نے 22 اکتوبر کو لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا جو 23 اکتوبر کی شب ضلع گوجرانوالہ میں مریدکے کے علاقے میں پہنچا تھا۔حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ابتدائی مذاکرات کے بعد تحریکِ لبیک کی شوریٰ نے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو 26 اکتوبر کی شام تک کی مہلت دیتے ہوئے مریدکے میں قیام کا اعلان کیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here