کراچی میں بظاہر پی ٹی آئی کا مظاہرہ حکومت کے خلاف ہورہا تھا لیکن حقیقی معنوں میں اِسکا نقصان ایم کیو ایم کی نام نہاد قیادت اٹھا رہی تھی، اُنہیں پتا تھا کہ پولیس کے اوپر پھینکا جانے والا ہر پتھر اُن کے سر پہ گر رہا ہے، اِس کی کہانی کوئی زیادہ طویل نہیں جب سے ایم کیو ایم نے اپنے تعلقات تحریک انصاف سے منقطع کر کے اتحادیوں کے گٹھ جوڑ میں شامل ہوگئی اُس وقت سے اہالیان کراچی اِسے ایک بیوہ کی بیٹی سمجھنے لگے ہیں، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اِس پر چٹکی بجاتے ہوے یہی کہہ رہا ہے کہ بریف کیس لیتے وقت اِس جماعت کے رہنماؤں نے اپنے باپ کی وضعداری کو بھی فراموش کردیا تھا ، اور بجائے پہلے آپ نہیں پہلے آپ کہنے کے چور کی طرح بریف کیس لئے کنی کاٹتے ہوے کمرے سے باہر نکل آئے تھے.پا رٹی کے رہنما خالد مقبول صدیقی جو انٹرا پارٹی الیکشن سے منتخب ہونے کے بجائے الیکشن کمیشن کی جانب سے نامزدکئے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ اُنہیں یہ حکم بھی ملا ہے کہ فوج کے ہر حکم کو بلا چوں چراں کے بجا لانا ورنہ یک جنبش قلم بحیرہ عرب میں پھینک دیئے جاؤگے تاہم خالد مقبول ایک نامقبول سیاستدان ہیں جنہوں نے ایم کیو ایم کا بیڑا غرق کردیا ہے، کچھ عرصے تک یہ نیویارک میں بھی مقیم رہے ہیں اور اُنکے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب بھی وہ کسی گھر میں مدعو ہوتے تھے اور اُن کی نظر کسی جوان لڑکی پر پڑتی تھی تو دوسرے دِن ہی شادی کا پیغام اُسکے گھر پہنچ جاتا تھا بلکہ ایک مرتبہ تو اخبار میں یہ اشتہار بھی آ گیا تھا کہ پاکستان کے فیڈرل منسٹر کو رشتہ ازواج کی ضرورت ہے. لڑکی امریکی سٹیزن اور اہل زبان ہو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے پیٹھ پر چھرا گھونپنے کا ایم کیو ایم کو کیا فائدہ پہنچا ہے؟ مطالبات کی فہرست جو متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے حوالے کی تھی ، واضح رہے کہ ایک متحدہ قومی موومنٹ (لندن) بھی معرض وجود میں ہے ، جس کے رہنما الطاف حسین ہر صبح اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوے یہ سوچتے ہیں کہ آیا وہ پاکستان جانے کے لائق ہوگئے ہیں یا نہیں؟ جب باپ شہباز شریف اور بیٹا حمزہ شریف وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں اور قوم سے یہ گلہ کر سکتے ہیں کہ وہ تہذیب و شرافت کا دامن چھوڑ چکی ہے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ کسی دِن الطاف حسین بھی قطر ائیر ویز کی کسی نشست پر کراچی آنے کیلئے تشریف فرما ہوں، بہر کیف آج تک پی پی پی کی حکومت نے کسی ایک بھی مطالبے کو پورا نہیں کیا ، ایم کیو ایم والے جب بھی اِس حوالے سے اپنے ہمعصر پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے گفت شنید کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنہیں یہی جواب ملتا ہے کہ سائیں کون سی دریا پر پُل بنادیا جائے ، جبکہ دریا یا پانی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، اُنکا مطلب یہی ہوتا ہے سندھ کی مالی حالت جس دگرگوں کا شکار ہے اُس میں نہ ہی 60 اور نہ ہی 40 فیصد والے لوگوں کے مفاد کا خیال رکھا جاسکتا ہے،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم والوں سے بریف کیس کا جو معاہدہ ہوا تھا، اُس کے تحت حکومت سندھ بلدیاتی اور تمام لوکل اداروں میں تبدیلی لانے کی پابند ہوگی، سندھ کی حکومت کوٹہ سسٹم کو نئے طریقے سے رائج کرے گی، جبکہ پولیس کے نظام میں بھی تبدیلی لائی جائیگی تاکہ اسٹریٹ کرائمز میں کمی آسکے۔ معاہدے کے تحت کراچی کے ایڈمنسٹریشن کو ایم کیو ایم کے حوالے کرنا تھا اور اِس کے سرپرست بیرسٹر مرتضی وہاب کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، تاہم ایسی کوئی بات دیکھنے میں نہیں آئی ہے ، سندھ حکومت کے وزیراطلاعات سعید غنی نے اِس امر کی تروید کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدے میں اِسکا کوئی ذکر نہیںہے لیکن پی پی پی اور ایم کیو ایم ایک وسیع البنیاد نکات پر متفق ہوئیں ہیںاور اِن دونوں پارٹیوں کے مابین تمام متنازع مسائل گفت
وشنید کے ذریعہ طے پا جائینگے جس سے سندھ کے تمام عوام کو فائدہ پہنچے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایم کیو ایم (پ) کو اپنے حلقہ کے ووٹرز سے سوالا ت کا انبار ہے، جن میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم کی اعلی قیادت نے اِس تنظیم کی بنیاد کو سازش کے تحت قلع قمع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اُن میں ایم کیو ایم (پ)کیلئے جدوجہد کرنے کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے اور وسائل بھی تنگ ہوگئے ہیں. ماضی کی طرح بھتہ خوری کا دھندا بھی سرد پڑگیا ہے . اِس تناظر میں تنظیم کیلئے اُن کا جُڑا رہنا محض وقت کی بربادی ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم (پ) کیلئے تحریک انصاف کو چھوڑکر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حمایت کرنے کے پس منظر میں اخلاقی اقدار کا کوئی بھی عنصر موجود تھاجبکہ یہ دونوں جماعتیں مہاجروں پر ظلم وستم ڈھانے ، اُنہیں لاپتا کرنے، اُن کے جائز حقوق کو سلب کرنے میں اپنا ایک ریکارڈ رکھتی ہیں. دو تکے کے لوگوں کو وزارت کے عہدے پر فائز کروادینے سے کراچی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
مضحکہ خیز امریہ ہے کہ شہر کراچی کی 4 کروڑ کی آبادی میں ایم کیو ایم کی نمائندگی کرنے والے پانچ قومی اسمبلی کے اراکین اپنے آپ کو پھنے خان سمجھتے ہیں،اُن کے ساتھ نہ ہی اب ڈاکٹر فاروق ستار ہیں اور نہ ہی غدار سید مصطفی کمال جو پاکستان کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھتا رہتا ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خالد مقبول کی قیادت میں جس طرح گذشتہ الیکشن میں ایم کیو ایم کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا کیا ایم کیو ایم آئندہ کے انتخابات میں بھی ایسی شکست کھانے کی متحمل ہوسکتی ہے؟