قارئین وطن ! امریکہ کی سرکاری چھٹیوں میں ”میمورئیل ڈے” کی چھٹی بڑی اہمیت کی حامل ہے اس دن وائٹ ہاؤس سے لے کر نہ صرف سرکاری عمارتوں بلکہ گھروں اور سڑکوں پر امریکن جھنڈا لہرایا جاتا ہے اور اس سے زیادہ فوجی قبرستان ارلیلنگٹن سمیٹری پر امریکن صدر اور دوسرے حکومتی عہدیدار ملک کے لئے جان دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے جاتے ہیں۔ یہ چھٹی لانگ ویک اینڈ بھی کہلاتی ہے کہ یہ مئی کے آخری دن پر پڑتی ہے اس دن سے موسم گرما کا آغاز بھی ہوتا ہے اور لوگ خاص طور پر اپنے گھروں میں بار بی کیو کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔اس چھٹی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے راقم نے اپنے دو ساتھیوں بیرسٹر شہزاد ریاض اور نواب زادہ میاں ذاکر نسیم صدر ق لیگ امریکہ کو مجبور کیا کہ چلو ہم بھی چلتے ہیں ورجینیا میں آپ دوستو کو ریٹائرڈ” پروفیسر جانسن براؤن ” جو واشنگٹن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل افیئرز کے پروفیسر تھے اور ایک بہت بڑے ہیومنسٹ پروفیسر نوم چومسکی کے بڑے گہرے دوست ،آپ لوگ بڑے خوش ہوں گے پروفیسر صاحب سے مل کر، کہ جہاں امریکہ میں پاکستان کے غدار حسین حقانی ٹائپ بکھرے پڑے ہیں اور خود امریکن انتظامیہ میں پاکستان مخالف اور ہندتوا سپورٹر ملیں گے آپ پاکستان کے دوست کو ملیں گے بقول میرے مرشد اقبال ! ایسی جنگاری بھی یارب ، اپنی خاکستر میں ہے۔
قارئین وطن ! اس درویش سے مل کر میرے دونوں ہمسفر نواب زادہ میاں ذاکر نسیم اور بیرسٹر رانا شہزاد بہت خوش ہوئے ہم چاروں نے مشہور ٹرکش ریسٹورنٹ کباب ہاؤس میں کھانا کھایا ،بل بقول ایک جل کوکڑ میرے اے ٹی ایم نواب صاحب نے ادا کیا ،ہم لوگ تقریباً ڈھائی گھنٹے پروفیسر صاحب کے ساتھ رہے انہوں نے امریکہ اور پاکستان کے کولڈ وار کے زمانے سے لے کر آج تک کے معاملات پر بڑی سیر حاصل گفتگو کی۔ اْن کی گفتگو کا ماخض یہ تھا کہ اب امریکہ ڈو مور کی پہلے والی پوزیشن میں نہیں ہے، اب اْس کو ”کیرٹ اور اسٹک ” کی پالیسی کے بجائے صرف کیرٹ کی پالیسی کو اپنانا ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے چین، روس، ترکی اور ایران الائنس نے امریکہ کی طاقت کا پیراڈائم بدل دیا ہے۔ آج افغانستان میں وہ پاکستان کے بغیر ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتا ،پروفیسر صاحب کی پاکستان کے لئے حوصلہ افزا باتیں سن کر ہمارے دل خوشی سے لبریز تھے، انہوں نے خاص طور پر بیرسٹر شہزاد کو مخاطب کر کے کہا کہ تم نوجوان ہو اور قانون دان ہو تمھارے لئے اس ملک کے سیاسی سسٹم میں بڑی جگہ ہے اور امریکن قانون دان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،اس سے پہلے کہ ہم اْن کا شکریہ ادا کرتے انہوں نے ہم تینوں کا بڑا شکریہ ادا کیا اور مجھ کو کہا کہ سردار رابطہ رکھا کرو اس بار تم بہت دیر کے بعد آئے ہو ہم تینوں نے ایک بارپھر دل کی گہرائی سے ان کے وقت کا شکریہ ادا کیا۔
قارئین وطن ! ابھی ہم ورجینیا میں ہی تھے کہ ہمارے دوست عدیل خان نے نیو یارک سے فون کر کے حامد میر کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف اس کی بدبو دار تقریر کا بتایا اس وقت تو ہم گاڑی میں تھے جب ہم نے اسٹار بکس میں کافی بریک کے لئے پڑاؤ ڈالا اور بیرسٹر صاحب کے آئی پیڈ پر حامد میر کی را اور نواز کی زبان سنی تو دنگ رہ گئے۔ اْس کی زہر میں ڈوبی زبان سے زیادہ ہمیں اپنے قومی سلامتی کے اداروں پر دُکھ ہوا کہ پتا نہیں اس حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو کون سا سانپ سونگھ گیا ہے کہ ایک زمانے سے غداروں کا ٹولہ فوج کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے اور یہ چْپ ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ جس ادارے کو اس طبقہ کا نوٹس لینا چاہیے اْس کا ہیڈ شیخ رشید صرف شیدا گردی میں زیادہ گم سم ہے۔ بیان بازی کے حد تک بھی تیز طرار نہیں ہے ،اس کے وزیر اعظم عمران خان کو خود اس ادارے کی سربراہی سنبھال لینی چاہئے تاکہ وہ ڈائیریکٹ ایکشن لے کر ایسے غداروں کا قلع قمع کریں ، ہم تمام راستے یہی باتیں کرتے رہے کہ پاکستان کی بدقسمتی کا عالم دیکھیں کہ ملک کی سیاست مریم صفدر اور اْس کے چچا شہباز شریف جبکہ دونوں کرپٹ اور سزا یافتہ ہیں ،کے ارد گرد گھوم رہی ہے کہ کس کا بیانیہ مانا جائے گا کس کا نہیں، شہباز شریف سیاسی مارکیٹ میں پرانی آوازیں کس رہا ہے ” صاحب جی میرے ول وی تک لو” اور دوسری طرف ڈس انفارمیشن کا پہاڑ کھڑا کیا ہوا ہے ، ہر ٹاک شو میں تاثر یہی ملتا ہے کہ ساری سیاست کا محور فوج ہے اور عمران خان بیچارہ سا لگ رہا ہے جبکہ حکو مت کا یہ انداز نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا کریں ” جو بویا ہے وہی کاٹنا ہے ” یہ اصول ہے نیچر کا اور جب کچھ نہیں ملتا خاص طور پر ٹی وی اینکروں کا کہ زبردستی ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کیا ہوتا ہے۔
قارئین وطن! سفر کی تھکن کہ ابرِ کرم نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہمارے سفر کو خراب کرنا ہے اور ہم ہیں کہہ رہے ہیں کہ ابرِ کرم تھم تھم کے برس کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ جائیں اسی کشمکش میں بھوک آگ بگولا ہو رہی تھی کہ پروگرام بنا اوک ٹری روڈ نیو جرسی رُکا جائے ۔ذہن میں مشہور شیزان ریسٹورنٹ تھا پہنچے تو پتا چلا کہ وہ تو ایک زمانہ ہوا کرونا کی نظر ہو گیا ہے، بھوک ہے کہ بیرسٹر صاحب نے کہا کہ چلیںامریکن کھانا کھاتے ہیں میں نے کہا کہ ٹہرو یار صبر کرو ابھی یہ کہا ہی تھا کہ ایک ونڈو پر پاکستان کا پرچم نظر آیا قریب پہنچے تو مجھ کو اپنی سیاسی جماعت پاکستان کونسل مسلم لیگ کی جماعت کے انتخابی نشان مینارِ پاکستان پر نظر پڑی ،پتا لگا کہ یہ تو پاکستانی ریسٹورنٹ طباق ہے بھئی مزا آگیا دبا کر چھولے پٹھورے اور چانپیں کھائیں ،اے ٹی ایم محترم نواب زادہ صاحب نے یہاں بھی بل چکایا ۔پپو پان کی دوکان پر رکے ایک زمانے کے بعد مولا بخش پان کا مزہ لیتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو پہنچے یو اختتام ہوا ہمارے میمورئیل ڈے کی چھٹی کا ،وہ کیا کہتے ہیں نہ بلخ نہ بخارا جو مزہ چھجو کے چبارے کا ہے، پاکستان زندہ باد۔
٭٭٭