اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو کوئی اس گھر تک آنے کی قدرت رکھتا ہو، وہ حج کے لیے آئے، پھر جو کوئی کفر کرے (یعنی قدرت کے باوجود نہ آئے)تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ اللہ رب العزت کے اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے، ہر سال لاکھوں فرزندانِ توحید مکہ کے بابرکت وادی میں پہنچ تو جاتے ہیں لیکن ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں سے ان بیس پچیس لاکھ خوش نصیبوں کا انتخاب بھی خود باری تعالی ہی فرماتے ہیں۔ اس سالانہ انتخاب کا معیار تو پتہ نہیں کیا ہوتا ہے لیکن اللہ کے فضل سے اس سال ہمارا سارا گھرانہ اللہ تعالی کا مہمان بننے کیلئے زادِ سفر باندھ رہا ہے۔ پاسپورٹ ویزہ اور ائیر ٹکٹ کے حصول کے مراحل طے ہو چکے ہیں۔ حج کے ارکان ادا کرنے کی ٹریننگ جاری ہے۔ گھر میں تیاریِ حج کا ماحول بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہلیہ کے ساتھ ساتھ، میرے دونوں بیٹے، بیٹی، بہو اور داماد سب حج کے عازم ہیں۔ ہر فرد نے اس مبارک سفر کیلئے کوئی نہ کوئی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ عمر کے اس حصے میں، میں کوئی بڑی ذمہ داری تو نہیں لے سکتا، بس ان سب سے یہی کہتا رہتا ہوں کہ!
غالب گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
دنیا بھر میں، کروڑوں افراد سفرِ حج کی تمنا دلوں میں رکھے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے میرے جیسے ایک خطاکار کا انتخاب، میرے لئے تو ایک معجزے سے کم نہیں لیکن یہ Sin Cleaning کا موسم شاید میرے جیسوں کیلئے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔
کعب اللہ شریف کی تعمیر اس جلیل القدر پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ کے ہاتھوں سے ہوئی جو مسلمانوں کے علاوہ یہود و نصاری کے کیلئے بھی انتہائی محترم ہیں۔ قرآن کی ایک آیت کی صورت میں ہم جب دعائے خلیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو اپنے انتہائی پیارے نبی اکرم ۖ کی ذات بابرکت تک پہنچ جاتے ہیں۔پروردگار! ان کے درمیان ایک پیغمبر خود انھی کی قوم میں سے بھیجیو، جو انھیں تیری آیات سنائے اور کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور ان کے اخلاق درست کرے۔ یہ ہمارے نبی ۖ آخرالزمان ہی ہیں جنہوں نے اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کر کرکے ہر قسم کی جاہلانہ رسوم ختم کیں۔امریکہ سے ہر سال دس ہزار سے کچھ زائد لوگ حج کے سفر پر نکلتے ہیں۔ ڈالر کے طاقت کے بل بوتے پر، سعودی میزبان انہیں دیگر ممالک سے آئے ہوئے زائرین سے کچھ بہتر سروسز مہیا کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سفرِ حج کوئی آسان سفر نہیں ہوتا۔ دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے پچیس لاکھ سے زائد حجاجِ کرام کیلئے سہولیات فراہم کرنا کوئی آسان کام بھی نہیں۔ اکثر لوگ پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے غالب یہ شعر کہہ گئے ہیں۔
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
لیکن اس قسم کے الفاظ غالب جیسا نابغہ روزگار تو کہہ سکتا ہے لیکن میرے جیسے کم مایہ مسلمان کیلئے تو اس طرح سوچنا بھی ممکن نہیں۔میرے اس سفرِ حج کے ممکن ہونے میں جہاں میرے بچوں کی کاوشیں شامل ہیں وہیں عزیزم عمران صدیقی صاحب کا زبردست اصرار اور عملی مدد بھی اہمیت کی حامل ہے، جس کی وجہ سے میرے جیسا سہل پسند آدمی، گرمی کے اس موسم میں اپنے اللہ کے گھر کی زیارت کیلئے جا رہا ہے۔ دیگر دوست احباب بھی خوب ہمت بندھا رہے ہیں۔ میرے ڈاکٹر حضرات نے بھی کلیئرنس دے دی ہے۔ اب تو صرف غالب کا یہ شعر ہی تنگ کر رہا ہے کہ
کعبہ کس منہ سے جا گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
زندگی بھر، گناہ تو بہت سارے سرزد ہوئے ہیں لیکن اگر اللہ کی پاک ذات نے اس سال مجھے اس سفرِ حج کیلئے منتخب کر ہی لیا ہے تو ایک موہوم سی امید کے سہارے اسی گنہگار منہ کے ساتھ ہی حاضری دوں گا۔ ان شااللہ، قبولیت کی کسی گھڑی، ہماری بھی سن لی جائے گی۔
لبی اللہم لبی، لبی لا شرِی ل لبی، ِن الحمد، والنِعم، ل والمل، لا شرِی ل
میرے لئیے سفرِ حج کا ایک خوبصورت اور محبوب حصہ، مدینہ منورہ کی زیارت ہے۔ ادائیگی حج تو ایک فریضہ ہے جس کی تکمیل کیلئے دنیا بھر کے بہت سے مسلمان ایک کٹھن سفر طے کرکے پہنچتے ہیں اور اپنی مقدور بھر کوششیں کرکے ارکانِ حج ادا کرتے ہیں۔ ان اراکین کی ادائیگی سے فریضہِ حج تو ادا ہوجاتا ہے لیکن مدینہ کی حاضری ایک ایسا عمل ہے جس کو عاشقانِ رسول ۖ ایک والہانہ جذبہ سے سرشار ہو کر انجام دیتے ہیں۔ اس والہانہ پن کی مثال دنیا کی کوئی اور اجتماعیت پیش نہیں کرسکتی۔ الحمداللہ، میں بھی اسی والہانہ محبت کا شکار ہوں۔ بظاہر تو فریضہ حج کی مکمل ادائیگی کیلئے جانا ہو رہا ہے لیکن دل کی گہرائی کی کسی اندرونی تہہ میں محبوبِ خدا، احمدِ مجتبی، نبی اکرم ۖ کے روضے کی زیارت کی خواہش زیادہ بے چین کئے ہوئے ہے۔ دعا ہے کہ یہ زیارت ہم سب کو نصیب ہو۔ اقبال عظیم صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لرزیدہ لرزیدہ
٭٭٭